کراچی: قوم پرستوں کا بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر حملہ اور توڑ پھوڑ
بحریہ ٹاوَن کراچی میں مشتعل افراد نے حملہ کردیا ، جلاوَ گھیراوَ کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے اطراف حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔
بحریہ ٹاون کے لیے ناجائز طریقے سے زمینیوں پر قبضے کے خلاف اندرون سندھ کے شہریوں نے احتجاج کیا ، مظاہرین کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ زمینوں سے جبری بے دخلی کے معاملے پر پاکستان پپپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے بحریہ ٹاون کو معاونت اور سرپرستی حاصل ہے۔
بتایا گیا ہے کہ رینجرز اور پولیس کی بھاری تعداد نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف دھرنے کیلئے جانے والے قافلوں کو سعید آباد کے قریب ٹول پلازہ پہ روک لیا، جس کے نتیجے میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ، بعد ازاں مظاہرین نے بحریہ ٹاؤن میں قائم پراپرٹیز، متعدد کاروں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی ، سڑک پر بھی ٹائر نذرآتش کردیے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف ’غیرقانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ کیے جانے والا احتجاج ہنگامہ آرائی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج میں ہنگامہ آرائی کے دوران گیٹ کے سامنے نامعلوم افراد نے آگ لگائی ہے جبکہ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی ہے۔مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج سے قبل مظاہرین نے سپر ہائی وے پر بھی دھرنا دیا، جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اس کے بعد سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی نے پولیس حکام سے بات کی اور انھیں کہا گیا کہ ’انھیں گیٹ کے سامنے دھرنا دینے دیا جائے وہ سپر ہائی کھول دیں گے وہ پر امن لوگ ہیں جس کے بعد انھیں دھرنے کی اجازت دی گئی۔‘
اس احتجاج کے دوران نامعلوم افراد بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے اور وہاں توڑ پھوڑ کی جس کے بعد جلسہ گاہ سے اعلان کیا گیا کہ ’شرپسندوں کا تعلق ان سے نہیں ہے، پولیس انھیں حراست میں لے۔ ‘توڑ پھوڑ کرنے والے افراد نے نہ صرف رکاوٹوں کو نذر آتش کیا بلکہ موقعے پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔
اس ہنگامہ آرائی کے دوران بحریہ ٹاؤن کے اندر موجود عمارتوں سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔ اس کے بعد پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی۔
سندھ یونائٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والوں کا تعلق سندھ ایکشن کمیٹی سے نہیں ہے۔ وہ پرامن لوگ ہیں اور پرامن احتجاج میں یقین رکھتے ہیں‘۔انھوں نے کہا کہ ’اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے کچھ عناصر نے یہ اقدام کیا ہے۔‘ دو عمارتوں کا آگ لگائی جبکہ کچھ موٹر سائیکلوں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے، پولیس کی مزید نفری اور فائر بریگیڈ پہنچ گئی ہے۔
سندھ ایکشن کمیٹی نے سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا ہے جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری۔احتجاجی مظاہرے کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ چوکیاں لگائی ہوئی تھیں جبکہ تنظیموں کا الزام ہے کہ بعض مقامات پر قافلوں کو روکا بھی گیا ہے، جس کی صوبائی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن نے موقف دیا تھا کہ ’مقامی بااثر سیاسی افراد اور لینڈ مافیہ مل کر‘ انھیں ’سیاسی و مالی مفادات کی خاطر‘ بلیک میل کر رہے ہیں۔
اس دھرنے میں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، خالق جونیجو کی جئے سندھ محاذ سمیت عوامی ورکرز پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، سندھ مزاحمت تحریک، ہاری کمیٹی، انڈجنس رائٹس اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قیام سے لے کر یہ سب سے بڑا احتجاج ہے، جس میں سندھ بھر سے سیاسی کارکنان کے علاوہ ادیب، شاعر و دانشوروں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت شریک ہے۔سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے بتایا تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع سے جلوس اس احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔ ’نواب شاہ، میرپور خاص، بدین اور جام شورو میں پولیس نے ان کے قافلے روکے ہیں۔ کہیں کہیں پر گاڑیوں کی ہوا نکالی گئی لیکن لوگوں کا جم گفیر دیکھ کر انھیں مجبور ہو کر رکاوٹیں ہٹانا پڑیں۔‘جلال شاہ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’بحریہ ٹاؤن انتظامیہ مقامی گوٹھوں اور آس پاس کی زمینوں پر قبضہ گیری بند کرے اور سپریم کورٹ نے اس کو جتنی زمین دی ہے اس پر اپنا منصوبہ محدود کرے۔ باقی اس کی تمام کارروائی غیر قانونی وغیر آئینی ہے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان کی مدد گار ہے۔‘انھوں نے الزام لگایا کہ ’آصف زرداری دیکھ لیں ایک طرف سندھ کا قومی و سیاسی کارکن، ادیب و دانشور ہے دوسری جانب ملک ریاض ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
دوسری جانب ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انڈجنس رائٹس سمیت دیگر جماعتوں نے بحریہ کی جانب سے سندھی آبادیوں کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کے داخلی راستے پر احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس صورتحال اور گذشتہ دنوں بحریہ آئیکون میں دستی بم حملے کے پیش نظر پولیس الرٹ رہے۔‘پولیس کے افسران کو اینٹی رائس فورس، گیس شیل اور واٹر کینن کے ساتھ مقامات پر موجود رہنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ادھر سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرتی تو یہ قوم پرست دوست یہاں تک کیسے پہنچتے۔قوم پرست، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کے لوگ پُرامن لوگ ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی شرپسند اس صورتحال کا فائدہ لے۔ اسی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو مین سپر ہائی وے ہے وہ بلاک نہ ہو کیونکہ کووڈ کی وبا پھیلی ہوئی ہے، کسی کو میڈیکل ایمرجنسی نہ ہو اور لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔ صرف حکومت کی یہی کوشش ہے۔‘
یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس کی مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں. سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں اس صورتحال پر سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کو تحقیقات کے لیے کہا ہے۔حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کیا گیا تھا۔
اس سارے معاملے پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے گذشتہ ماہ کہا گیا تھا کہ انھوں نے کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کچھ بلیک میلرز یہ معاملات پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ ’بحریہ ٹاؤن نے اپنے قریب کے گوٹھوں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘بحریہ ٹاؤن کے بیان مطابق انھوں نے ’سوشل میڈیا پر گمراہ ویڈیوز اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تردید‘ کی تھی۔
صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مقامی منتخب اراکین بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’کیوں چاہیں گے کہ لوگ بے گھر ہوں۔‘
کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے پر سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف ’غیرقانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ کیے جانے والے احتجاج پر سوشل میڈیا صارفین بھی اپنی رائے اور تبصرے دے رہے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر ہونے والے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف سعد تمیمی کا کہنا تھا کہ ’جہاں اس وقت سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف زمینوں پر قبضے کے لیے مقامی افراد پر فائرنگ اور زبردستی زمین ہتھیانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں ہمارے ’آزاد میڈیا‘ پر بھی سوالیہ نشان ہے، میں مختلف ٹی وی چینلز دیکھ رہا ہوں لیکن کوئی چینل اس مظاہرے کو نہیں دکھا رہا۔‘
صحافی و تجزیہ نگار مبشر زیدی نے بھی سندھ قوم پرست جماعتوں اور مقامی افراد کی جانب سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘
جبکہ جواد خان نامی صارف نے مشتعل مظاہرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن میں آگ لگی ہوئی ہے، بہت سی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بھاری نفری بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر تعینات ہے۔ عوام محتاط رہے۔‘
صحافی و اینکر محمد مالک نے بھی بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی ایک ویڈیو پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کراچی میں آج کے بہت سے مناظر میں سے ایک، مشتعل مظاہرین کا پاگل پن۔‘
سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔
اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔