افغان طالبان حکومت اندرونی اختلافات کا شکار کیوں ہو گئی؟

افغان طالبان اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں جہاں انہیں اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا بھی سامنا ہے جبکہ پاکستان مخالف ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کی پشت پناہی کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان جیسا دوست بھی کھو دیا ہے۔ ملک میں شرپسندی پھیلانے والے عناصر کی پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان میں موجود طالبان دوست حلقے بھی اب ان کے خلاف ہو چکے ہیں۔مبصرین کے مطابق افغان حکومت کو درپیش  چیلنجز طالبان کے لیے فیصلہ کن لمحات ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران طرز حکمرانی، انسانی حقوق اور گروہ بندی کے مسائل پر بڑھتی ہوئی نگرانی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے طالبان کی صفوں میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں

حالیہ ہفتوں میں طالبان کے اندرونی اختلافات کھل کر اس وقت سامنے آئے جب نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے غیر معمولی طور پر طالبان کے سپریم رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ پر عوامی اجتماع میں کھل کر تنقید کی۔تاہم افغان طالبان کے اندر بڑھتے ہوئے اختلافات کی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ تحریک کی قیادت میں نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ اختلافات جھگڑوں یا کھلے تصادم میں تبدیل نہیں ہوتے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے زور دیا کہ طالبان کے ارکان کے درمیان اندرونی مباحثے معمول کی بات ہیں اور یہ کسی سنگین اختلاف کی علامت نہیں۔انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے درمیان نظریاتی اختلافات معمول کی بات ہیں۔ اسلامی امارت کا ہر رکن کسی بھی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور بعض اوقات یہ معاملات میڈیا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم، ہمارے درمیان کوئی جھگڑے نہیں ہیں۔‘’ہم اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔‘

مبصرین کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان کی یہ وضاحت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان کی قیادت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔

حال ہی میں ایک ذرائع نے افغان نشریاتی ادارے کو بتایا کہ آپسی اختلافات کی وجہ سے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد 13 دن سے منظرعام سے غائب ہیں۔دوسری جانب افغان نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے غیر معمولی طور پر طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ پر خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے عوامی تنقید کی ہے جبکہ برطانوی اخبار گارڈین کی ایک خبر کے مطابق عباس ستانکزئی سپریم لیڈر پر تنقید کے بعد سکیورٹی خدشات کی بنا پر ملک چھوڑ چکے ہیں۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 20 جنوری کو خوست صوبے میں ایک گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے نائب وزیر خارجہ محمد عباس ستانکزئی نے حکومت کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری سکول اور اعلیٰ تعلیم میں شرکت پر عائد پابندی پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ’اس پابندی کا نہ اب اور نہ ہی مستقبل میں کوئی جواز ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’ہم دو کروڑ خواتین کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔‘ ’پیغمبر اسلام کے زمانے میں علم کے دروازے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کھلے تھے۔ وہ ایسی غیر معمولی خواتین تھیں کہ اگر میں ان کی خدمات کی تفصیل بیان کروں تو کافی وقت درکار ہوگا۔‘

رپورٹ کے مطابق اس تقریر اور مبینہ طور پر طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ پر تنقید کے بعد طالبان کے سربراہ نے ستانکزئی کی گرفتاری اور ان پر سفری پابندی کا حکم دیا گیا جس کے نتیجے میں ستانکزئی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب طالبان کے اندر نسبتاً اعتدال پسند سینیئر رہنما نے افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کی بحالی کا مطالبہ کیا ہو۔ستمبر 2022 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے ایک سال بعد بھی ستنکزئی نے کہا تھا کہ کسی کے پاس ایسا کوئی مذہبی جواز نہیں جو لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کو جائز ثابت کر سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ سکول اور کالج مرد و خواتین دونوں کے لیے لازمی ہیں۔

تاہم اب ملا ہیبت اللہ پر تنقید کے بعد ان کاافغانستان سے فرار ایسے وقت میں سامنے آیا جب طالبان کی قیادت کے دو بڑے دھڑوں کابل اور قندھار میں موجود طاقت کے مراکز کے درمیان اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔طالبان کے سپریم لیڈر قندھار میں مقیم ہیں جہاں سے وہ کسی بھی طرح سے منظر عام پر آئے بغیر مطلق العنان حکمرانی کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم، ملازمت، سفر اور عوامی مقامات پر آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔گذشتہ ماہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر نے طالبان کے سپریم لیڈر اور افغانستان کے چیف جسٹس کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ان کی پالیسیوں کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔

Back to top button