کیا افغان طالبان پاکستان سے بھی ڈبل گیم کھیل رہے ہیں؟

سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ افغان طالبان دنیا کے علاوہ پاکستان کے ساتھ بھی ڈبل گیم رہے ہیں۔ اسی لیے افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے مطلوب کمانڈر مفتی نور ولی محسود کو سی این این کے ساتھ ایک ویڈیو انٹرویو کی اجازت دی۔ اس انٹرویو کا مقصد اسلام آباد کو یہ پیغام دینا تھا کہ افغان طالبان کی کابل کی طرف پیش قدمی پر پاکستان کو اظہار تشویش سے گریز کرنا چاہئے ورنہ افغان طالبان ایک بار پھر تحریک طالبان کو ریاست پاکستان کے خلاف میدان میں اتار سکتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے لیے اپنے تازہ مضمون میں حامد میر لکھتے ہیں کہ افغان طالبان حیرت انگیز سفارتی چالیں چل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کے جنگجو پورے افغانستان میں آگے بڑھ رہے ہیں، تو دوسری طرف وہ خطے کے اہم ممالک کے اضطراب کو دور کرنے کے لئے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ افغان طالبان نے ایرانیوں، روسیوں اور وسط ایشیاء کے ممالک کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے بات چیت شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے چینیوں کو یقین دلایا ہے کہ انکا چین میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف بیجنگ کے مظالم کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ افغان طالبان نے امریکیوں سمیت ہر کسی کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان کی حکومت افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائیوں کے اڈے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دے گی۔ لیکن حامد میر کے مطابق اس حکمت عملی کو 26 جولائی کو تب ایک بڑا جھٹکا لگا جب تحریک طالبان پاکستان کے مطلوب سربراہ مفتی نور ولی محسود نے سی این این کو ایک غیر معمولی ویڈیو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا گروپ افغانستان کی سرحد پر پاکستانی قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنے اور انہیں "آزاد کرانے” کا ارادہ رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اتنے اہم موقع پر افغان طالبان کی قیادت نے پاکستانی طالبان کے سربراہ کو اس طرح کا اشتعال انگیز اعلان کرنے کی اجازت کیوں دی؟ حامد میر کے مطابق یہ تحریک طالبان پاکستان کے رہنما نور ولی محسود کا پہلا ٹیلی ویژن انٹرویو تھا۔ محسود ایک انتہائی تجربہ کار مذہبی عسکریت پسند ہے جس کو امریکہ نے "خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد” قرار دے رکھا ہے۔ امریکہ کے مفتی محسود مخالف اس فیصلے کی تائید اقوام متحدہ بھی کر چکا ہے۔ جب پاکستانی میڈیا نے افغان انٹرویو پر ردعمل کے لیے افغان طالبان کے قطر میں مقیم ترجمان سہیل شاہین سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا پرانا موقف دہرایا کہ انکا گروپ کسی کو کسی ملک پر حملے کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ تاہم حامد میر کے مطابق یہ ایک کھلا راز ہے کہ نور ولی محسود مشرقی افغانستان میں روپوش ہے۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں پاکستان پر مرکوز ہیں لیکن اسے بنیادی طور پر افغان طالبان ہی کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ دراصل نور ولی محسود نے اردو زبان میں شائع ہونے والی اپنی یاد داشتوں میں اس نکتے کو بڑی تفصیل سے بیان کر رکھا ہے۔ اس کتاب میں اس نے القاعدہ کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعلق کی بھی وضاحت کی ہے اور اسے قریبی اتحادی کے طور پر بیان کیا ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اگرچہ اپنے ٹی وی انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نے القاعدہ کے ساتھ براہ راست روابط کا اقرار کرنے میں احتیاط سے کام لیا لیکن اس نے اپنی کتاب میں یہ موقف اپنایا ہے کہ "ہم نے ریاست پاکستان کے خلاف جہاد کیا ہے اور ہم اسلامی امارت افغانستان کے جھنڈے تلے پوری دنیا میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلامی امارت افغانستان کا مطلب افغان طالبان ہی ہے۔ سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ محسود اپنے افغان اتحادیوں یعنی طالبان سے انحراف کی سکت نہیں رکھتا۔ لہازا اسے افغان طالبان نے دو وجوہات کی بنا پر سی این این کو انٹرویو دینے کی اجازت دی ہو گی۔ اول تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نور ولی محسود ابھی زندہ ہے کیونکہ چند ہفتے پہلے ایک ڈرون حملے میں اس کی موت کی خبر آئی تھی۔ محسود نے انٹرویو میں خود بھی اپنی موت کی تردید کی۔ اس انٹرویو کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ افغان طالبان اسلام آباد کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ طالبان کے کابل کی طرف بڑھنے پر پاکستان کو کسی عوامی تشویش کے اظہار سے گریز کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر محسود کو سامنے لا کر دھمکی دی گئی ہے کہ افغان طالبان ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان کو ریاست پاکستان کے خلاف میدان میں اتار سکتے ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ بہر صورت سی این این پر ٹی ٹی پی امیر کے انٹرویو نے ان وعدوں کی ساکھ کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جو فی الحال افغان طالبان عالمی برادری سے کر رہے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ اور دیگر طاقتیں واقعتاً افغان طالبان پر اعتماد کر سکتی ہیں جب کہ وہ اپنے ایک اتحادی گروہ کو پاکستان کے خلاف دھمکیاں جاری رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں؟
حامد میر کے مطابق یہ بات قابل غور ہے کہ القاعدہ کے دو کارکنوں نے چند ہفتے قبل سی این این کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے امریکا کے خلاف "تمام محاذوں پر جنگ” کی تعریف کی تھی اور افغان طالبان کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ افغانستان کے کم از کم 15 صوبوں میں القاعدہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ افغانستان میں موجود القاعدہ جنگجوؤں میں سے بیشتر افراد کا تعلق القاعدہ کی اس شاخ سے ہے جسے القاعدہ برصغیر پاک و ہند (AQIS) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گروہ میں بنیادی طور پر افغان اور پاکستانی شہری شامل ہیں تاہم ان میں ہندوستان ، بنگلہ دیش اور میانمار کے شہری بھی موجود ہیں۔ اس رپورٹ میں ازبکستان اور چین کے گروپوں کا بھی ذکر ہے۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ مشرقی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے لگ بھگ 6000 جنگجو سرگرم ہیں۔یہ رپورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر مل کر کام کر رہے ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ طالبان جنگجوؤں نے پچھلے کچھ ہفتوں میں سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ رواں مہینے کے شروع میں سیکڑوں افغان فوجی تاجکستان فرار ہو گئے۔ اس ہفتے 46 افغان فوجیوں کو پاکستان نے ایک ایسے سرحدی علاقے میں پناہ دی تھی جہاں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو سرگرم ہیں۔ طالبان خطے کے ان ممالک کے خوف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو شدید خواہش رکھتے ہیں کہ افغان طالبان کی مدد سے افغانستان میں داعش کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لیکن حامد میر کے مطابق ان ممالک کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ انہیں افغان طالبان پر مشترکہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ گذشتہ سال امریکیوں کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کی پاسداری کریں۔ طالبان کو اپنے اس وعدے پر قائم رہنا چاہیے کہ افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف غیر ملکی عسکریت پسندوں کا اڈا نہیں بننے دیا جائے گا۔ افغان طالبان خطے میں بڑے اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ کابل اور اسلام آباد میں شاید ہی کسی بات پر اتفاق ممکن ہو۔ دونوں حکومتیں اکثر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ طالبان دونوں ممالک کے باہمی اختلافات سے فائدہ حاصل کریں گے۔ حامد میر کے مطابق فریقین میں اعتماد کا بحران اور شک و شبے کی فضا افغانستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغان طالبان کو بھی اپنے دوہرے کھیل سے متعلق ان خدشات کو دور کرنے کے لئے قابل اعتماد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو سی این این پر ان کے درپردہ اتحادی کے حالیہ انٹرویو کے بعد سامنے آئے ہیں۔