انتخابات موخر کرانے کی نہ تھمنے والی خواہشات

تحریر:نصرت جاوید۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت
چند ہفتے قبل عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے اٹارنی جنرل کو مجبور کیا کہ وہ صدرِ پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین پل کا کردار ادا کرتے ہوئے ان دونوں کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے پر رضا مند کریں۔ بالآخر 8 فروری 2023ء کی تاریخ طے ہوگئی۔ اس کا اعلان ہوگیا تو چیف جسٹس صاحب نے مذکورہ تاریخ کو پتھر پر لکھی تحریر ٹھہرایا۔ صحافیوں کو حکم دیا کہ وہ انتخابات کی بابت خدشات بھری افواہیں نہ پھیلائیں۔ اس ضمن میں اگر ان کے دلو ں میں شکوک وشبہات ابھریں تو ان کا اظہار فقط اپنی ازدواج سے تنہائی میں بیان کرتے ہوئے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔
ہمارے چند متحرک رپورٹر مگر ابھی تک کنوارے ہیں۔ اسد علی طور بھی ان میں شامل ہے۔ اسی باعث دن بھر کی مشقت کے بعد چوندی چوندی خبریں ڈھونڈکر انہیں وی لاگ کے ذریعے بیان کردیتا ہے۔چند دن قبل اس نے دعویٰ کیاکہ انتخابات موخر کروانے کی گیم یا سازش تیار ہوچکی ہے۔ اس گیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عزب مآب چیف جسٹس صاحب کا من موہنے کے لئے چند باتونی چاپلوس بھی صحافیوں کی صفوں میں سے تلاش کرنے کے بعد مامور کردئے گئے ہیں۔میں اس کے وی لاگ سے گھبرا گیا۔ اس کے بعد مگر سفارتی حلقوں سے آئے چند اشاروں کی بدولت یہ بھی طے کرلیا کہ اسد طور جس گیم کا ذکرکررہا ہے وہ کامیاب نہیں ہوپائے گی۔
طور کے وی-لاگ کے مگر دو دن بعد میرے ایک محترم ساتھی سہیل وڑائچ نے اپنے مقبولِ عام کالم میں بھی انتخابات میں تاخیر کے امکانات کا ذکر تفصیل سے کردیا۔ سہیل وڑائچ ’’باخبر حلقوں‘‘ سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ بولنے سے زیادہ سنتے ہیں اور مختلف ا فراد سے گفتگو کے بعد اخذ کئے نتائج کو نہایت محتاط الفاظ میں بیان کردیتے ہیں۔موصوف کا کالم پڑھا تو میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ’’آتش‘‘ اب جوان نہیں رہا۔ کسی خبر کی تصدیق یا تردید کے لئے خجل خواری ممکن نہیں رہی۔’’باخبر حلقوں‘‘ سے رابطوں میں جان کھپانے کے بجائے ریٹائر ہوا رپورٹرصحافتی تجربے سے ’’بصیرت‘‘ کشید کرنے کی کوشش کرتاہے۔ وفاق اور صوبوں کی نگران حکومتوں میں شامل چند وزرا کا رویہ،بدن بولی اور بیان بازی ویسے بھی کئی دنوں سے مجھے ’’مشکوک‘‘ محسوس ہورہے تھے۔ اسلام آباد میں وزراء کے لئے مختص گھر اور گاڑی پر لگاجھنڈا اقتدار کو پرکشش بنادیتا ہے۔ Interim یا عارضی کالفظ ان کے ہوتے ہوئے بہت تکلیف دیتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے اور انتخاب کروانے کے بجائے نگران حکومت اپنے اقتدار کو طول دے کروطن عزیز کے لئے ’’کچھ کرجائے‘‘۔
’’کچھ ‘‘کرنے کے لئے مگر پاکستان جیسے ملکوں کو آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کی سرپرستی درکار ہوتی ہے۔ عالمی معیشت کے اس نگہبان ادارے کی ترجیحات واشنگٹن طے کرتا ہے اور ان دنوں امریکہ کو پاکستان سے نہ تو افغانستان کمیونزم کے غلبے سے آزاد کروانا ہے اور نہ ہی وہاں نام نہاد ’’دہشت گردی کا خاتمہ‘‘ اس کا دردِ سر ہے۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ملک ویسے بھی ایک نہیں دو جنگوں کے ہاتھوں پریشان ہے۔یوکرین پرروس کا حملہ اور غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اسے مسلسل پریشان کئے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف نے لہٰذا پاکستان سے معاملات طے کرتے ہوئے ان دنوں امریکی وزارت خارجہ یا دفاع سے رجوع کرنے کے بجائے علم معیشت کے نصابی اصولوں کے اطلاق کے علاوہ ’’منتخب حکومت‘‘ کے ساتھ طویل المدت بندوبست کا تقاضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ذاتی خواہشات یا سازشی کہانیوں سے مغلوب ہوئے اذہان ہی اس تناظر میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر پاکستان کو معاشی اعتبار سے عدم استحکام سے دو چار نہیں کرے گی۔
انتخابات موخر کروانے کی خواہشات مگر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔آج ہی کے دن اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک ’’عام شہری‘‘ کی درخواست ’’اچانک‘‘ اور فوری سماعت کے لئے مقررہوچکی ہے جو انتخابات میں تاخیر کی خواہاں ہے۔ عدالتی امور کی بابت تبصرہ آرائی مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی کے بس سے باہر ہے۔قانون کی مبادیات سے لاعلم ذہن البتہ یہ سوچنے سے بھی قاصر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ان انتخابات کو کیسے موخر کرپائے گا جن کی تاریخ ہماری سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو متحرک کرنے کے بعد صدرِ پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کی باہمی مشاورت کی بدولت طے کروائی ہے۔’’عام شہری‘‘ کی درخواست تاہم باقاعدہ سماعت کے لئے لگادی گئی ہے۔ حتمی فیصلے کے انتظار کے علاوہ میں اس تناظر میں کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔
عدالتی امور سے قطع نظر ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے یہ کہنے سے مگر باز نہیں آ?ں گا کہ اگر انتخابات 8فروری 2023ء کے بجائے کسی اور دن تک موخر کردئے گئے تو پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ پورے عالم کو پیغام فقط یہ جائے گا کہ عمران خان کی جماعت اپنے قائد کے جیل میں ہونے کے باوجود آئندہ انتخابات واضح اکثریت سے جیت رہی تھی۔ اسی باعث انہیں ٹالنے کی گیم لگائی گئی۔ انتخابات کی تاخیر کو جائزٹھہرانے کے لئے اس کے علاوہ جوبھی تاویل گھڑی جائے گی اسے قبول کرنے کو انتخابا ت کی تاخیر کا اہتمام کرنے والے بھی دل سے تیار نہیں ہوں گے۔
انتخابی حرکیات کا میں نے اکتوبر1984ء سے بھارت جاکر برسرزمین مطالعہ شروع کیا تھا۔ اس کے بعد 1985ء کے برس پاکستان میں ’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ بھی تقریباََ پاکستان کے ہرقصبے اور شہر میں خجل خوار ہوکر دیکھے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے مری،راولپنڈی اور نوشہرہ کے حلقوں کا بغور جائزہ لیا ہے۔انتخابی منظر نامے کا اب تک ٹھنڈے دل سے جو جائزہ لیا وہ یہ سوچنے کو اْکسارہا ہے کہ تحریک انصاف سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت 8فروری 2023ء کے دن ہوئے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی۔
چند سازشی اذہان مگر بہت مکاری اور ہوشیاری سے یہ تاثر پھیلائے چلے جارہے ہیں کہ 8فروری کے روز ہوئے انتخاب تحریک انصاف کو سادہ ہی نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت بھی دلواسکتے ہیں۔یقین مانیں یہ ’’شیر آیا شیر آیا‘‘والی کہانی ہے۔ 8فروری 2023ء کے دن طے ہوئے انتخابات تاہم موخر کردیئے گئے تو محاورے والا ’’شیر‘‘ واقعتا آسکتا ہے۔اسی باعث صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے اڈیالہ جیل میں لگی عدالت میں پیش ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کا ذکر کیا تھا۔ کاش ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ اپنے وی لاگ وغیرہ کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ شیخ مجیب الرحمن کون تھا اور عمران خان اس کا ذکر کیوں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

Back to top button