جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن
تحریر:سلیم صافی۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
یوں تو عشروں سے پاکستان میں آرمی چیف کی شخصیت اور سوچ پاکستان کی سیاست حتیٰ کہ معاشرت کو بھی متاثر کرتی رہی ہے لیکن گزشتہ چھ سال کے دوران پاکستان کا سیاسی اور حکومتی نظام اس قدر ہائبرڈ بن چکا ہے کہ اب کئی حوالوں سے آرمی کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کی سوچ اور اپروچ کو سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے جسے سہیل وڑائچ صاحب نے جنرل باجوہ کے دور میں ڈاکٹرائن کا نام دیا تھا۔ گزشتہ روز موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے نمائندہ تقریباً دو ہزار طلبہ و طالبات اور وائس چانسلرز سے تین گھنٹےپر محیط تبادلہ خیالات کیا، جس سے ان کی سوچ اور اپروچ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ سید عاصم منیر کا ڈاکٹرائن کیا ہے ۔ان کا خطاب اتنا جامع اور تفصیلی تھا کہ اس کے بعد جب نگراںوزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو خطاب کے لئے بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے خطاب کے بعد ان کےپاس کہنے کے لئے کچھ رہا نہیں اس لئے انہوں نے ان کے خطاب کی شرح و وضاحت پر مبنی چند منٹ کی گفتگو پر اکتفا کیا۔ آرمی چیف سید عاصم منیر نے حسب روایت فی البدیہہ تقریر کی ۔ انہوں نے کہا کہ :آج میری زندگی کا نہایت اہم دن ہے کیونکہ میں پاکستان کے مستقبل یعنی نوجوانوں سے مخاطب ہورہا ہوں۔ یہ نوجوان پاکستان کے وسائل میں سے اصل سورس ہیں ۔ پھر انہوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ :
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
انہوں نے کہا کہ ہمارے آبائواجداد نے ہندوئوں سے آزادی اس لئے حاصل کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا مذہب، ہماری تہذیب اور رہن سہن ان سے مختلف ہے ۔ اس کے لئے انہوں نے بے تحاشہ قربانیاں دیں اور آج اگر ہمیں مغرب سے متاثر ہونا ہے یا اس کی تہذیب کواپنانا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہندو سے آزادی لینے کی کیا ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے مقابلے میں ہمیں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان کے مقابلے میں ہمارا مذہب بھی سپیریر ہے اور ہماری تہذیب بھی ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مغرب سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق ساٹھ کے عشرے میں دیاگیا جبکہ پاکستان میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق 1947سے حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ میں دو ریاستیں اسلام کے نام پر بنی ہیں ۔ ایک ریاست طیبہ اور دوسری ریاست پاکستان ۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ نہیں بلکہ ریاست طیبہ موزوں لفظ ہے کیونکہ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں جبکہ قرآن میں اس شہر کے لئے یثرب کا لفظ استعمال ہوا ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کے لئے ریاست طیبہ موزوں لفظ ہے ۔ان دونوں ریاستوں میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلا ریاست طیبہ کے لئے بھی اس کے قیام سے بہت پہلے ہجرت حبشہ ہوئی جبکہ پاکستان کے لئے بھی اس کے قیام سے بہت پہلے خلافت موومنٹ کے دوران ہجرت ہوئی ۔ اسی طرح ریاست طیبہ کے قیام کے لئے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور ریاست پاکستان کے لئے بھی ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت ہوئی ۔ ریاست طیبہ بھی 27رمضان المبارک کو قائم ہوئی اور ریاست پاکستان بھی 27 رمضان المبارک کو قائم ہوئی ۔ریاست طیبہ کا مطلب بھی پاک ریاست ہے اور پاکستان کا مطلب بھی پاک لوگوں کا مسکن ہے ۔اگر سعوی عرب کو اللہ نے تیل کی صورت میں قدرتی وسیلے سے نوازا ہے تو پاکستان پر بھی اللہ نے قدرتی وسائل کی صورت میں بے تحاشہ نوازشات کی ہیں ۔ یہاں بڑے بڑے گلیشیرز ہیں جس سے ہمارے دریا رواں رہتے ہیں ۔ ہمارے پہاڑوں کے نیچے بھی قدرتی خزانے ہیں ۔ ہمارے صحرائوں کے نیچے بھی قدرتی وسائل کی موجودگی کا یہ عالم ہے کہ صرف بلوچستان میں زیرزمین چھ ٹریلین ڈالرکے قدرتی ذخائر موجود ہیں جبکہ پاکستان کا کل قرضہ 128 ملین ڈالر ہے ۔ ہم اگر ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکے تو یہ ہمارا قصور ہے ۔(ان وسائل سے استفادے کی بجائے الٹا) ہم نے مغربی کلچر کو فالو کرنے کی روش میں اپنے کلچر کی دھجیاں بکھیر دیں۔ یہ مدر ڈے اور فادر ڈے کے ڈرامے کیا ہیں؟ ہم مسلمانوں کے لئے تو ہر دن مدر ڈے ہے اور ہر دن فادر ڈے ہے ۔ ہمارے رب نے جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھا ہے ۔ترجمہ:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔قرآن نے کہا ہے کہ وہ کچھ بھی کریں لیکن ہمیں ان کے سامنے اف تک نہیں کرنا ۔ جبکہ مغرب کے فریڈم آف ایکسپریشن میں تو بچے اس نام پر ماں باپ کے سامنے بھی کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے دین میں فریڈم آف ایکسپریشن کے ساتھ کچھ قدغنیں بھی ہیں ۔ مثلا ًہم والدین کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے اور وہ کچھ بھی کریں تو ہمیں ان کے سامنے اف تک کرنے کی اجازت نہیں ۔
دراصل ہم بڑے ناشکرے واقع ہوئے ہیں اور قرآن کی یہ آیت ہم پر لاگو ہوتی ہے کہ ترجمہ : اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے ۔ہم یوں ہی احساس کمتری کے شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ ساٹھ کے عشرے میں پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی کرنے والا ملک تھا۔ یہاں الیکٹرک ٹرین چلتی تھی ۔ دنیا کی دو ایئرلائنز کے پاس جیٹ جہاز تھے جن میں ایک پی آئی اے کے پاس اور دوسرا جاپان کی ایئرلائن کے پاس تھے ۔ Great people to fly with کا ٹائٹل پی آئی اے کو امریکہ کی فرسٹ لیڈی نے دیا تھا ۔ ہم نے امارات ، مالٹا اور سنگاپور کی ایئرلائنز بنائیں۔ کوریا پاکستان کا پانچ سالہ پلان کاپی کرتا تھا ۔ جس روز ہم نے کہہ دیا کہ بس بہت ہوگیا ہم نے سدھرنا ہے تو پاکستان ایک جہاز کی طرح ٹیک اپ کر جائے گا۔
اللّٰہ نے ہمیں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام دیا ہے۔ گندم کی پیداوار میں ہم آج بھی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ساتویں نمبر پر ہیں اور پورے براعظم افریقہ میں اتنی گندم پیدا نہیں ہوتی جتنی صرف پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ اس سال چاول کی فصل ڈبل ہوئی ہے حالانکہ ابھی اس میں گرین پاکستان پروجیکٹ کے ثمرات شامل نہیں ہوئے لیکن نہ جانے کیوں ہم پھر بھی امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں ناامید ہونے سے منع کیا۔
ترجمہ:تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللّٰہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔(جاری ہے)