الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کا ہے یا الیکشن کمیشن کا؟

سپریم کورٹ نے عام انتخابات کے انعقاد بارے دائر تمام درخواستیں نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن اور حکومت سمیت تمام فریقین کو8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا پابند کر دیا ہے تاہم ایک سوال تاحال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا استحقاق کس کے پاس ہے؟ کیا آئینی طور پر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا صدر کا اختیار ہے یا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دینے میں خود مختار ہے؟
خیال رہے کہ شہبازشریف حکومت کے کاتمے کے بعد سے پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ایک عرصے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صدر مملکت آمنے سامنے تھے۔ سابق حکومت نے صدر کے کردار کو محدود کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا سہارا لے کر تاریخ کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا تھا۔
لیکن سپریم کورٹ میں انتخابات کے حوالے سے 2 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئیے کہ صدر مملکت 90 روز میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن کو صدر سے مشاورت کا پابند بنایا اور اتفاق رائے سے 8 فروری کی تاریخ طے پائی۔
اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ جو حلقے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے وہ درست تھے، جبکہ حکومت کی الیکشن ایکٹ میں ترمیم غلط تھی۔ لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں صدر کے ساتھ مشاورت اور الیکشن کی تاریخ دینے کے صدارتی اختیار کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے نوٹیفکیشن میں باور کرایا ہے کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت دیے گئے تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے دی جا رہی ہے۔ یہی نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں زیررسماعت مقدمے میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال مزید اہم ہو گیا ہے کہ مستقبل میں اتنخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے؟سپریم کورٹ میں جب یہ نوٹیفیکیشن پیش کیا گیا چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ’کسی نے آئین کی شق 48(5) کا حوالہ نہیں دیا۔‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہہ دیا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے یہ پھر کسی وقت طے کریں گے۔اس حوالے سے آئینی ماہر عارف چوہدری نے کہا کہ ’بنیادی طور یہ اختیار صدر کا ہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 48(5) بڑا واضح ہے کہ صدر اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک موجودہ صورت حال کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کو اس حوالے سے تمام ابہام دور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں واضح کر دینا چاہیے کہ یہ اختیار صدر ہی کا ہے اور صدر ہی تاریخ دینے کے اہل اور پابند ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو اختیار الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کرکے دیا گیا ہے جو غیر آئینی ہے۔ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدر کا اختیار آئین کے تحت اور گورننس کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کو اس ترمیم کے حوالے سے بھی لازمی طور پر فیصلہ کرنا چاہیے۔
آئینی ماہر حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ کے مطابق ’آئین پاکستان اور الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ صدر کے پاس قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد کے بعد کوئی رکن بھی قائد ایوان منتخب نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں صدر اسمبلی تحلیل کرکے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کر سکتے ہیں۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے فی الحال اس آئینی مسئلے کی تشریح کرنا مناسب نہیں سمجھی تو یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کے بعد وہ اس نکتے پر واضح قانون سازی کریں۔
اس صورت حال پر سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے رسماً الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔ قانون میں لکھا جا چکا ہے کہ الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن دے گا تو اس قانون کو صرف ترمیم کرکے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اب یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کو کسی فریق نے چیلنج نہیں کیا۔ اس لیے یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن ہی دے گا، لیکن وہ اس معاملے پر صدر سے مشاورت ضرور کرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے اس صورت حال پر کہا کہ ’اگرچہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، لیکن سپریم کورٹ نے صدر سے بھی تحریری یقین دہانی لی ہے جس کے بعد یہ تاریخ کسی ایک فریق کی طرف سے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن اور صدر کی جانب سے متفقہ طور پر سامنے آئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ’اس طرح کے ابہام کو دور کرنا پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے جو بھی نئی پارلیمنٹ آئے گی وہ انتخابات کی تاریخ کے اختیار واضح کرنے اور انتخابات میں تاخیر کے مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔‘