پاکستان بھارت سے باسمتی چاول کے نام کی جنگ کیوں ہارنے والا ہے؟


پاکستانی حکام کی نا اہلی کے باعث بھارت یورپی یونین میں باسمتی چاول کے نام کے حقوق حاصل کرنے جا رہا ہے جس سے ملک کو چاول کی برآمد پر سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ باسمتی چاول کے نام کے حقوق حاصل کرنے میں پاکستان کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہو گی کہ باسمتی چاول پاکستان میں مقامی مصنوعہ کے طور پر ابھی تک رجسٹرڈ ہی نہیں۔
واضح رہے کہ دانشورانہ املاک کے قانون کی رو سے ٹریڈ مارک، برانڈ رجسٹریشن اور کاپی رائٹس کو محفوظ کیا جاتا ہے جس کے بعد کسی بھی کمپنی کا لوگو، نام اور اس کا مواد کوئی دوسری کمپنی یا ادارہ استعمال نہیں کر سکتا۔اسی قانون کی نسبتاً نئی شق جیوگرافک انڈیکیشن یا جی آئی کے تحت کسی بھی چیز کے ارتقاء یا اصل افزائش کی جگہ کا تعین کرکے اس حوالے سے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور اشیاء کو علاقے یا ملک سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ فوڈ سائنس ماہر عثمان غنی اس کی مثال کچھ یوں دیتے ہیں کہ جیسے پیزا یا پاستہ کو اٹلی سے منسوب کیا جاسکتا یا پھر برگر کو امریکہ سے، یہی معاملہ باسمتی چاول کا بھی ہے جسے بھارت نے اپنے نام پر رجسٹرڈ کروا لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جیوگرافک انڈیکیشن قانون کی رو سے جب کسی چیز کو کسی مخصوص علاقے سے منسوب کردیا جاتا ہے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ چیز اصل میں اسی علاقے سے درآمد ہو سکتی اور اسی علاقے میں قائم فیکٹریوں اور ڈسٹری بیوٹرز کو اس شے کا اچھا ریٹ ملے گا۔
عثمان غنی نے بتایا کہ انڈیا نے اپنے ملک میں 2008 میں ہی جیوگرافکل انڈیکیشن قانون متعارف کروا دیا تھا جس کے بعد عالمی سطح پر انڈیا باسمتی چاول سے قبل دارجیلینگ کی چائے کے جیوگرافک انڈیکیشن حقوق حاصل کر چکا ہے۔ اب انڈیا نے باقاعدہ طور پر باسمتی چاول کے حقوق حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین میں درخواست دی تو پاکستان کو ہوش آئی لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ اب پاکستان نے بھارت کی جانب سے دی گئی درخواست کو چیلنج کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ باسمتی چاول کے نام پر اس کا حق ہے۔ لیکن یورپین یونین میں دائر کردہ پاکستان کی اپیل پر اسکے حق میں فیصلہ آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستانی اپیل مسترد ہونے کے بعد اسکے باسمتی چاول کی برآمدات کم ہو کر آدھی رہ جائیں گیں کیوں کہ اسکے باسمتی چاول کو سیکنڈ گریڈ تصور کیا جائے گا جس سے اس کے نرخ میں واضح کمی آئے گی۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری الطاف حسین شیخ کا کہنا ہے کہ باسمتی چاول انڈیا کے نام ہو جانے کی صورت میں پاکستانی چاول کی برآمدات میں ایک ارب ڈالر کمی آنے کا خدشہ ہے۔ الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی جانب سے کئی سالوں سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جا رہی تھی تاہم حکومت نے گزشتہ سال فروری میں یہ قانون کابینہ سے منظور کروایا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔
دوسری جانب یورپی یونین میں پاکستان نے انڈیا کی درخواست کو منظور کرنے کے خلاف اپیل دائر کی ہے، جسے جلد سماعت کےلیے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ پاکستان کی جانب سے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے پلیٹ فارم کے تحت کیس کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ جہاں پاکستان یورپی یونین میں بھارت کی جانب سے باسمتی چاول کو اپنی خصوصی مصنوعہ کے طور پر رجسٹرڈ کروانے کے خلاف کیس لڑ رہا ہے وہیں انکشاف ہوا کہ باسمتی چاول، پاکستان میں ہی مقامی مصنوعہ کے طور پر رجسٹرڈ نہیں۔ قانون میں کسی منصوعہ کو بین الاقومی مارکیٹ میں رجسٹرڈ کروانے سے پہلے اسے ملک کے جیوگرافیکل انڈیکیشن کے تحت تحفظ دینا لازم ہے۔
تاہم رواں برس مارچ میں نافذ ہونے والے جیوگرافیکل انڈیکیشن ایکٹ 2020 میں کوئی ایسے قوانین نہیں، جس کے نتیجے میں اب تک باسمتی چاول پاکستان کی محفوظ مصنوعہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ باسمتی چاول کو پاکستان کی مصنوعہ کے طور پر تحفظ دینے کا معاملہ اس وقت منظر عام پرآیا تھا جب بھارت نے رواں برس ستمبر میں یورپی یونین میں ایک درخواست جمع کروا کر اس اناج کی مکمل ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔ اپنی درخواست میں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ ’باسمتی‘ لمبا اور خوشبودار چاول برصغیر کے خاص جغرافیائی خطے میں پیدا ہوتا ہے۔اس چاول کی تفصیلی تاریخ بیان کرکے بھارت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ خطہ جہاں یہ چاول پیدا ہوتا ہے وہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے دامن میں شمالی بھارت کا حصہ ہے۔ جب تقریبا بھارت کے حق میں فیصلہ ہو چکا تو پاکستان نے اس چاول پر بھارتی دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ باسمتی چاول پاکستان اور بھارت کی مشترکہ پیداوار ہے۔ جہاں بھارت بین الاقوامی سطح پر باسمتی چاول کی 65 فیصد تجارت کرتا ہے وہیں بقیہ 35 فیصد باسمتی چاول پاکستان پیدا کرتا ہے جو ملک کی سالانہ 80 کروڑ سے ایک ارب ڈالر برآمدات کے برابر ہے۔پاکستان سالانہ 5 سے 7 لاکھ ٹن باسمتی چاول دنیا کے مختلف حصوں کو برآمد کرتا ہے جس میں سے 2 سے ڈھائی لاکھ ٹن یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button