عمرانڈو عمران کے مضحکہ خیز دعووں کو سچ کیوں مان لیتے ہیں؟

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سیاسی تجزیہ کار حسین حقانی نے کہا ہے کہ عمران خان کے چاہنے والوں کیلئے حقائق کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ افغانستان سے امریکی انخلاکے بعد سے پاکستان میں امریکہ اور مغرب کی عدم دلچسپی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لہذا ان کے لئے اس جھوٹ پر یقین کرنا آسان ہے کہ ان کا لیڈر اس وقت مغرب مخالف طاقتوں کا ایک نیا عالمی اتحاد بنا کر اسلامی احیا کی راہ ہموار کرنے والا تھا جب بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے توانا ہوتے ہوئے گٹھ جوڑ … نے اُسے اقتدار سے ہٹا دیا ۔عمرانی ہجوم کی سوچ کے پیروکار نہیں دیکھ سکتے کہ ان کا یہ خیال کتنا مضحکہ خیز ہے .اپنے ایک کالم میں حسین حقانی پوچھتے ہیں کہ کیا کمیونسٹ چین اور نئے دور کی سامراجی طاقت،روس … اسلام کی عالمی سربلندی کیلئے ان کا ساتھ دیں گے؟ عمران پرست ہجوم روس کے ساتھ ترکی کے مسائل، یا اس کی امریکی زیر قیادت نیٹو کی رکنیت سے بھی بے خبر ہے ۔ یہ لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں کہ ‘بھائی’ رجب طیب اردوان ان کے کپتان کے ساتھ مل کر امت کا وقار بحال کرنےکیلئےکمر بستہ رہے ، اور اس جدوجہد میں روس بھی ان کے ساتھ ہے ۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ مقبول عام نعرے بازی کی کامیابی کی ایک وجہ قومی بیانیے میں تلاش کی جاسکتی ہے جو یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی سویلین اور فوجی حکومتوں کے ادوار میں کئی دہائیوں تک پاکستانیوں کے کانوں میں اتارا گیا۔ پاکستانیوں کو باور کرایا گیا ہے کہ سیاسی بدعنوانی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، پاکستان کی مایوس کن شرح خواندگی، ٹیکسوں کی ناکافی وصولی، اعلیٰ تعلیم کا پست معیار، زرعی اور صنعتی پیداواری صلاحیت، اور بیرونی امداد اور قرضوں پر انتہائی انحصار کو مسائل سمجھا ہی نہیں گیا قوم عموماً اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ نظریاتی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کیا ہے۔ اس کی عالمی تنہائی کی وجہ ‘ڈالر خور’لیڈروں کی غلامی کو قبول کرنے پر آمادگی ہے، نہ کہ جہاد اور دہشت گردی کے حوالے سے ماضی کی غلط پالیسیاں۔ بے خبر عوام یہ یقین کرنےکیلئے تیار رہتے ہیں کہ صرف ایک سخت گیر اور صاف ستھرا آدمی آجائے جس کا کرشمہ اور روزانہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقاریر پاکستان کے تمام مسائل کو جادوئی طریقے سے حل کر دے گی۔ حسن حقانی کہ مطابق پاکستان کو ایک نئے قومی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کی تاریخ اور صلاحیت کے حقیقت پسندانہ جائزےپر مبنی ہو۔ پرانا بیانیہ جس کا پرچار درسی نصاب اور میڈیا کے ذریعے برس ہا برس تک تواتر سے کیا گیا ، اس پر زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہے ۔ یہ طبقات شہروں میں رہتے ہیں اور موجودہ مقبولیت کے چیلنج کی حمایت کی بنیاد ہیں ۔ اس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکار، سرکاری ملازمین، اور پیشہ ور افراد شامل ہیں، جو زیادہ تر سرکاری رہائش گاہوں میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کو سرکاری سبسڈی والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ ایسی سوچ پاکستان کو ’’اسلام کا قلعہ‘‘بنا کر پیش کرتی ہے ، لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتی کہ اس کا دراصل مطلب کیا ہے ۔ قدرتی وسائل اور محنت کش عوام پاکستان کو ایک خوش حال ملک بنا سکتے تھے ، لیکن یہ لوگ صرف بدعنوان سیاستدانوں کی وجہ سے غریب اور مفلس ہیں ۔ تنخواہ دار طبقہ تجارت، معاشی پالیسیوں یا کاروبارکی سمجھ نہیں رکھتا۔ یہ فوراً ایسی نعرہ بازی پر یقین کرلیتا ہے کہ ایک مرتبہ جب پاکستان سے لوٹے گئے اربوں ڈالر، جو سمندر پار اکائونٹس میں چھپائے گئے ہیں، واپس آگئے تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ جب اُن کا ہیرو ساڑھے تین سال حکومت کرتا رہا تو ایسی کوئی دولت بیرونی دنیا سے نہیں آئی ، لیکن یہ حقیقت بھی انھیں افسانوی خوش فہمی کی دنیا سے نہیں نکال سکتی ۔ قومی میڈیا کے بیانیے اکثر ایک اچھی کہانی کے عناصر سے مالا مال ہوتے ہیں ۔خیراس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہانی حقیقت سے اتنی دور ہو کہ یہ زمینی مسائل کیلئے بے محل بن جائے۔

حسن حقانی بتاتے ہیں کہ ام طور پر مقبول سیاسی رہنما قوم کو اندرونی اور بیرونی کشمکش کا شکار کردیتے ہیں ۔ کچھ کیسز میں وہ ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں جو بیرونی دشمنوں کیلئے سازگار ہوتے ہیں یہ صورت حال کسی طور خوش گوار نہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قوم کی مایوسی کا تدارک کیا جائے قبل از اس کے کہ یہ قوم کی بقا کا مسئلہ بن جائے ۔ لیکن ایسا محض تقریروں اور بیانات سے نہیں ہوسکتا۔ مقبول رہنما کی جذباتی موسیقی کے عادی کان منطقی دلائل نہیں سنتے ۔ لوگ نجات کے جھوٹے وعدوں کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے وہ طلسمی افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان کے رہنمائوں نے ایک طویل عرصہ سے پاکستان کو عالمی سازشوں کا شکار قراقر دیا ہے ،ا ور قوم بھی برسوں سے سازش کی تھیوریوں کو آسانی سے مانتی آئی ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان اس لیے کمزور ہیں کیوں کہ وہ نوآبادیاتی نظام کا شکار تھے،‘‘ نہ کہ یہ کہ وہ نوآبادیاتی نظام کا شکار اس لیے ہوئے کیوں کہ وہ عسکری اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔اس حقیقت پر کبھی بات نہیں ہوتی کہ توپ اور تلوار کے درمیان جنگ میں تلوار کی فتح کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

Back to top button