عمران کی گرفتاری کی وجہ بننے والی القادر یونیورسٹی فراڈ نکلی
بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض حسین نے جس القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے قیام کے لیے عمران خان کو بطور وزیر اعظم اسلام آباد میں اربوں روپے مالیت کی ساڑھے چار سو کنال زمین عطیہ کی تھی وہ ابھی تک نہ تو مکمل طور پر فنکشنل ہو پائی ہے اور نہ ہی اس میں دو برس میں 100 سے زیادہ طلبہ کو داخلہ مل سکا ہے۔ لہذا ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسے ایک فراڈ پروجیکٹ سمجھتے ہوئے یونیورسٹی کا درجہ دینے سے انکاری ہے۔
کل 458 کنال اراضی پر قائم ہونے والی القادر یونیورسٹی جس ٹرسٹ کے تحت کام کر رہی ہے اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان، انکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور فرحت شہزادی عرف فرح خان گوگی شامل ہیں۔ القادر ٹرسٹ نے اب تک تقریباً 30 کروڑ روپے کے عطیات اکٹھے کیے ہیں جن میں سے سال 2020 میں 10 کروڑ سے زائد جبکہ سال 2021 میں 20 کروڑ روپے سے زائد کے عطیات اکٹھے کیے گئے۔ یاد رہے کہ القادر یونیورسٹی کو عطیہ کی گئی 458 کنال زمین کی مالیت صرف 24 کروڑ 40 لاکھ روپے بتائی گئی حالانکہ اس کی اصل قیمت اربوں روپوں میں ہے۔ یہ زمین پہلے عمران خان کے قریبی دوست ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی بخاری کو منتقل کی گئی جنہوں نے بعدازاں اسے ٹرسٹ کو منتقل کر دیا۔
سال 2021 میں آغاز سے القادر یونیورسٹی اب تک صرف 100طلباء کو داخلہ دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ اپنے پہلے سال میں القادر نے 40 طلباء کو داخلہ دیا جبکہ اس سال صرف 60 طلباء عمران خان کی ڈریم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کا ڈریم انسٹیٹیوٹ اپنے طلباء سے فیس بھی وصول کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ القادر ٹرسٹ کے تمام قسم کے اخراجات ایک بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اپنے معاہدے کے مطابق سنبھال رہے ہیں۔ القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹی ڈاکٹر عارف نذیر بٹ سے سوال کیا گیا کہ جب تمام اخراجات رئیل اسٹیٹ سے وابستہ بحریہ ٹاؤن اٹھارہا ہے تو پھر ٹرسٹ اضافی عطیات ٹیوشن فیس کیوں وصول کی جارہی ہے؟ تاہم وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی زمین کو وصول کرنے کے معاہدے پر دستخط مسز بشریٰ خان اور بحریہ ٹاؤن والوں نے کیے جبکہ اس ٹرسٹ کے چیئرمین عمران خان تب وزیر اعظم پاکستان تھے۔ اسی دوران سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی دیرینہ دوست فرح خان گوگی کو بنی گالہ کے قریب بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی جانب سے 400 کنال سے زائد زمین ٹرانسفر کی گئی۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ زمین دراصل عمران خان اور ان کی اہلیہ کو دی گئی لیکن فرح گوگی کے نام پر ٹرانسفر کی گئی۔ فرح کو ٹرانسفر کی گئی اربوں روپے مالیت کی زمین کی مستند دستاویزات بھی سامنے آ چکی ہیں جن کے مطابق ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک نے زمین فرح کے نام منتقل کی، گوگی کو سابقہ خاتون اول بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی فرنٹ پرسن قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ملک ریاض کی اپنی بیٹی کے ساتھ ایک آڈیو گفتگو بھی سامنے آئی تھیں جس میں وہ بتا رہی ہیں کہ فرح گوگی نے بحریہ ٹائون پشاور کا مسئلہ حل کروانے کے لیے بشریٰ بی بی کے لیے 5 قیراط کی ہیروں کی انگوٹھی کا مطالبہ کیا ہے۔ بیٹی نے ملک ریاض کو یہ بھی بتایا کہ بشریٰ بی بی کو 2 قیراط کی ہیروں کی انگوٹھی پسند نہیں آئی۔
یاد رہے کہ فرح خان کا اصل نام فرحت شہزادی ہے جو بشری ٰبی بی کے پہلے شوہر خاور فرید مانیکا کے بہترین دوست احسن جمیل گجر کی دوسری اہلیہ ہے۔ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے چند روز پہلے دبئی فرار ہوگئی تھیں۔ بعد میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے عمران کو تحفے میں دی گئی ایک قیمتی ترین گھڑی بھی فرح گوگی نے ہی دبئی میں عمر فاروق ظہور نامی شخص کو فروخت کی تھی۔ فرح کو ملک ریاض کی جانب سے الاٹ کی گئی زمین کی دستاویزات کے مطابق انہیں سب سے پہلے موہڑہ نور اسلام آباد میں 200 کنال اور 6 مرلے منتقل ہوئے۔ اسکے بعد اسے 100 کنال ایک مرلہ اور 100 کنال 5 مرلہ کی دو مزید زمینیں ٹرانسفر کی گئیں۔ پہلی منتقلی 10 مارچ 2021 کو جبکہ دوسری منتقلی 26 اگست 2021 کو ہوئی۔
ملک ریاض کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے الاٹ کردہ 458 کنال زمین اس زمین کے علاوہ تھی جو فرح خان کو الاٹ کی گئی۔ لیکن القادر یونیورسٹی 30 کروڑ سے زائد کے عطیات اکٹھے کرنے کے باوجود تاحال نا تو مکمل ہو پائی ہے اور نہ ہی پوری طرح فنکشنل ہو پائی ہے۔ اس حوالے سے ایک ٹرسٹی ڈاکٹر عارف نذیر بٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے ٹرسٹ کو یونیورسٹی کادرجہ دینے کی شرائط پوری کردی ہیں اور درخواست ایچ ایس سی پنجاب میں ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یاد رہے کہ ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اس ادارے کے اصل ٹرسٹیز عمران خان، بشریٰ خان، ذوالفقار عباس بخاری اور ظہیر الدین بابر اعوان تھے۔ بعد ازاں زلفی بخاری اور بابر اعوان کو ٹرسٹ سے نکال کر ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور مسز فرحت شہزادی عرف فرح خان کو ٹرسٹیز بنایا گیا۔ القادر یونیورسٹی کی مینجمنٹ کے مطابق یہ ہے تو ایک یونیورسٹی لیکن ایچ ای سی پنجاب اسے تسلیم نہیں کرتا۔ یہاں صرف بی ایس۔ مینجمنٹ کی تعلیم کی اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ 50 طلباء داخل کرسکتا اور اس کا الحاق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پنجاب سے ہے۔