قومی اسمبلی میں اب نیا اپوزیشن لیڈر کون ہوگا؟
شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے بعد اب یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ نئی حکومت کی اپوزیشن کون کرے گا اور اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟
یاد رہے کہ اگر تحریک انصاف والے مستعفی نہ ہوتے تو قائد حزب اختلاف کا عہدہ عمران کے پاس جاتا جن کے ساتھ 150 کے قریب اراکین اسمبلی ہیں۔ تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا کردار کون ادا کرے گا؟
قانونی ماہرین کے مطابق اگر قومی اسمبلی کے قواعد کو سامنے رکھیں تو عموماً انتخابات کے فوری بعد وہ جماعتیں جو اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہیں ان میں سے جو بھی اکثریتی تعداد کے ساتھ تحریری طور بھی سپیکر کو آگاہ کرے کہ وہ فلاں رکن کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہتے ہیں، سپیکر اس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ اگر پارلیمانی سال کے دوران اپوزیشن ارکان قائد حزب اختلاف تبدیل کرنا چاہیں تو وہ اکثریتی دستخطوں کے ساتھ کسی بھی دوسرے رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔ اب جبکہ ایوان میں سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی جماعت پی ٹی آئی مستعفی ہو چکی ہے تو قائد حزب اختلاف کے لیے تین آپشنز باقی بچتے ہیں۔
سب سے پہلا آپشن تحریک انصاف کے وہ منحرف ارکان ہیں جنہوں نے استعفی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر یہ اراکین خود کو ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر ایوان میں برقرسر رکھتے ہیں تو ان کی تعداد کسی بھی اپوزیشن دوسری جماعت سے زیادہ ہے اور وہ اپنے کسی ایک رکن کو اپوزیشن لیڈر نامزد کر سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کی اپوزیشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یہ لوگ فرینڈلی اپوزیشن کا۔کردار ادا کریں گے۔ منحرف اراکین کا کہنا ہے کہ انہون نے غلط کام پر اپنی پارٹی کے وزرا کے خلاف بھی آواز اٹھائی، اور اب حکومت کے غلط اقدام پر بھرپور اپوزیشن کریں گے۔
منحرف اراکین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم سے کوئی زور زبردستی استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ ہم اپنے پارٹی کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو ووٹ دینے گئے تھے لیکن ہماری پارٹی خود ہی بائیکاٹ کر کے چلی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کا کہنا ہے کہ ہم نے پارٹی پالیسی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ ہم پر آرٹیکل 62 یا 63 کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ استعفیٰ دینے یا نہ دینے کے حوالے سے ہر رکن آزاد ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے اپنے تمام ارکان قومی اسمبلی کے استعفے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ہم پارلیمنٹ نہیں جائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اب عوامی سطح پر نئے انتخاب کا دبائو ڈالے گی اور ہم دوبارہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت لے کر جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منحرف اراکین کے گروپ سے تعلق رکھنے والے راجہ ریاض کے اپوزیشن لیڈر بننے کا زیادہ امکان ہے۔ انکا تعلق فیصل آباد سے ہے، وہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں لیکن اگلا الیکشن نواز لیگ کے ٹکٹ پر لڑنے کا وعدہ حاصل کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں بھی شہباز شریف کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے علاوہ جی ڈی اے ایسی جماعت ہے جس کے پاس چار نشستیں ہیں اور اگر وہ اپنی اتحادی تحریک انصاف کے برعکس ایوان میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا نام قائد حزب اختلاف کے لیے سامنے آ سکتا ہے۔ اگر وہ قائد حزب اختلاف بنتی ہیں تو بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری خاتون قائد حزب اختلاف ہوں گی۔ تاہم اس کا امکان انتہائی کم ہے۔ اسی طرح ایم ایم اے سے الگ ہونے والے جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ باقی تمام ارکان کسی نہ کسی صورت حکومت کا ہی حصہ ہوں گے اس لیے ان کے اکلوتے رکن ہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں، چنانچہ انھیں قائد حزب اختلاف بنایا جائے۔
پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک قائد حزب اختلاف کا عہدہ حکومت مخالف عہدہ ہی سمجھا جاتا تھا جو ایوان میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے، احتجاج کرنے اور اپوزیشن ارکان کی قیادت تک محدود تھا۔ تاہم الیکشن 2008 کے بعد جب آصف زرداری کی حکومت بنی تو قائد حزب اختلاف کو پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی روایت کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر، ممبران الیکشن کمیشن، چیئرمین نیب سمیت متعدد آئینی عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بامعنی مشاورت کو یقینی بنانے کے حوالے قانون سازی کی گئی۔
شراکتی جمہوریت کے اس نظریے کے تحت اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر نگران وزیراعظم کے تقرر کے لیے بھی پہلا مرحلہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت آئینی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے کے فیصلے کو اس تناظر میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ قومی سطح پر مشاورتی عمل سے مکمل طور پر نکل جائیں گے اور نئی حکومت اپنی مرضی سے تمام فیصلے کرنے میں آزاد ہو گی۔