کپتان کے بد بخت چماٹ کے خلاف سخت کارروائی کا امکان
وفاقی حکومت نے عمران خان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتے ہوئے سابق حکومت کے ناقد صحافیوں کو گرفتار کرنے اور ان کو ہراساں کرنے والے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ بابر بخت قریشی کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسکے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ ڈی آئی جی بابر بخت قریشی کو بر طرف کر دیا ہے۔ صحافتی حلقوں میں بدبخت کہلانے والے بابر بخت کے علاوہ ایف آئی اے لاہور کے سربراہ محمد رضوان اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس کو بھی فارغ کر کے نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وزارت داخلہ ڈویژن کے تحت ایف آئی اے میں خدمات انجام دے رہے پولیس سروس آف پاکستان کے بی پی ایس-20 کے افسر بابر بخت کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور اسے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ بابر بخت عمران خان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کا انتقامی ایجنڈا آگے بڑھانے میں ملوث تھا۔ اپنے دور میں بابر بخت نے کپتان کی خوشنودی کی خاطر سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر درجنوں صحافیوں کو گرفتار کروایا اور انہیں ہراساں کیا۔ بابر بخت کی بدمعاشی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے کپتان کے ناقد سینئر صحافیوں عامر میر اور عمران شفقت کو گرفتار پہلے کیا اور ان پر ملک دشمنی کے جھوٹے کیسز بعد میں درج کیے، جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا تھا۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بابر بخت کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ بابر بخت پر ایک بڑا الزام یہ بھی ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے عمران خان کے ایما پر فوجی قیادت خصوصا ًجنرل باجوہ کے خلاف زہرافشانی شروع کی تو موصوف خاموش رہا اور اس عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بابر بخت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور اس کی ایک بڑے تعمیراتی ادارے کے بزنس پارٹنر ہونے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں۔ ماضی میں ایف آئی اے کے سینئر افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر اس سے کئی بار جواب طلبی کی مگر اربوں روپے کی جائیداد کا مالک قراردیا جانے والا بابر اپنی شہزاد اکبر سے دوستی کی بنا پر کسی کو خاطر میں نہ لایا۔
بابر بخت پنجاب پولیس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز ہے اور بطور ایف آئی اے ڈائریکٹر آپریشنز وہ کئی صحافیوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات دائر کر کے انہیں گرفتار کرنے میں ملوث رہا ہے۔ ملک بھر میں کپتان دور میں پیکا ایکٹ کے تحت جتنے بھی صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمات دائر کیے وہ سب بابر بخت کی کارستانیاں تھیں لیکن وہ کسی ایک بھی کیس میں کسی صحافی کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔ جب اگست 2022 میں بابر بخت نے سینئر صحافیوں عامر میر اورعمران شوکت کو ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بابر کے خلاف کئی اور صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے اور ہراساں کرنے کا کیس بھی زیر سماعت ہے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ ڈی جی ایف آئی اے کو اسکے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ بابر پر کرپشن کے علاوہ زمینوں پر ناجائز قبضہ کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک غریب شہری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کو ایک تحریری درخواست میں اسےظالم سیاسی افسر قرار دیتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔ متاثرہ شہری کا الزام تھا کہ بابر بخت اپنے والد سابق ن لیگی ایم پی انیس قریشی اور ن لیگ کی سابق قیادت کی آشیرباد کی بنا پر عرصہ دراز سے لاہور میں تعینات ہے اور اس کی دومرتبہ لاہور سے باہر کچھ عرصے کے لیے تعیناتی ہوئی۔ شہری نے اپنی درخواست میں یاد دلوایا کہ بابر بخت پر الزام ہے کہ جب لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو ایس پی مجاہد کی حیثیت سے موصوف ڈیوٹی سے غائب پائے گئے تھے جس کے بعد اس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بابر بخت قریشی نے صاحب حیثیت افراد کو رشوت لیکر نہ صرف ایف آئی اے کیسز سے بچایا بلکہ زمینوں پر قبضے کروانے میں بھی ان کا ساتھ دیا۔ یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ بابر ایک بڑے تعمیراتی ادارے کا بزنس پارٹنر بن چکا ہے اور اربوں روپے کی جائیداد کا مالک ہے۔