کیا ملک بھر میں فوجی عدالتیں بحال ہونے والی ہیں؟
سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز روکنے کا فیصلہ معطل کرنے کا معاملہ سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جہاں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو حق اور سچ کی نوید قرار دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب عمرانڈو وکلاء سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہدف تنقید بناتے نظر آتے ہیں۔
خیال رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے تین ماہ قبل اپنے فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، تاہم انٹرا کورٹ اپیلوں کے بعد 13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے۔
آئینی اور قانونی ماہرین کی عدالتی فیصلے پر منقسم آرا سامنے آ رہی ہیں۔ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ گو کہ پہلے والا عدالتی فیصلہ متفقہ تھا لیکن اُس میں بہت سی چیزوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا تھا۔ فیصلے میں زمینی حقائق سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ یہاں تک کہ اُس فیصلے کا تفصیلی فیصلہ تک نہیں آیا۔
ماہرِ قانون اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ وہ فوجی عدالتوں کے حق میں نہ پہلے تھے نہ ہی اب ہیں۔ کیا کسی فوجی کا مقدمہ سول عدالت میں چل سکتا ہے؟ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ملک کا آئین بالاتر ہے یا کوئی اور قانون؟ آئین اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں۔ عام شہریوں کے مقدمات سول عدالتوں میں ہی چلنے چاہئیں۔اُنہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی حکومت میں بھی فوجی عدالتیں کام کرتی رہی ہیں، لیکن اُس وقت کسی نے آواز نہیں اُٹھائی۔ مگر سارا سلسلہ نو مئی کے واقعات کے بعد بنا ہے جس میں ایک بات واضح ہے کہ نو مئی کو جو کچھ بھی ہوا وہ اِس سے پہلے کبھی پاکستان میں نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ حکومت نے نو مئی اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کے مطابق گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد اور پی اے ایف بیس میانوالی پر حملے میں ملوث ہیں۔
یاسین آزاد کہتے ہیں کہ ماضی اِس بات کا گواہ ہے کہ عدلیہ پر وقتاً فوقتاً دباؤ رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عدلیہ پر دباؤ ڈالتی ہے۔
اشتر علی اوصاف کی رائے میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ عدالتیں دباؤ میں فیصلے کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین اور قانون دونوں میں عدلیہ سے متعلق درجات ہیں جن میں ماتحت عدالتوں اور پھر اعلٰی عدلیہ کا نظام موجود ہے۔اُن کے بقول یہ تمام عدالتیں اِسی لیے بنائی گئی ہیں تاکہ غلط فیصلوں کا سدِباب ہو سکے۔اُن کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق عالمی معاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ فیصلے کے خلاف کم از کم ایک اپیل کا حق فریقین کو ہونا چاہیے۔ اِسی لیے اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔
یاسین آزاد کے بقول آئین کا آرٹیکل 10 اے کسی بھی شخص کے شفاف ٹرائل کا کہتا ہے جس میں ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہے۔ اُن کی رائے میں فوجی ایکٹ صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر لاگو ہونا چاہیے۔
اشتر علی اوصاف سمجھتے ہیں کہ شخصی آزادی کو جو آئین میں تمام باتیں کی گئی ہیں وہ ملک کی سیکیورٹی کے ساتھ مشروط ہیں۔ وہ کسی بھی انفرادی شخص کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ قومی سلامتی کی تنصیبات کو نقصان پہنچائے یا وہ کوئی ایسا عمل کرے جو ملک کی سلامتی کے ساتھ تصادم اختیار کرے۔اشتر علی اوصاف کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت دنیا کے کم و بیش 32 ممالک ایسے ہیں جن میں فوجی تنصیبات پر کوئی عام شہری حملہ آور ہو یا جاسوسی کرے یا کسی عام شہری یا کسی فوج کی معاونت کرے تو اُس کا مقدمہ بھی فوجی عدالتوں میں ہی چلتا ہے۔
پاکستانی وکلاء برادری کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں فوجی عدالتیں بحال کر دی جائیں گی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے گزشتہ فیصلے کی معطلی کا یہ حکم نامہ جاری ہوا ہے، اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ربیعہ باجوہ کے مطابق اس عجلت سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ حالات اسی طرف جا رہے ہیں کہ ملٹری کورٹس کو بحال کر دیا جائے گا، ”اور ایسا لگتا ہے کہ عدالت عوام کو ذہنی طور پر اس بحالی کے لیے تیار کر رہی ہے۔‘‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ ”حکومت جلد از جلد سزائیں دینا چاہتی ہے اور عمران خان اب بحال ہو جانے والی فوجی عدالتوں کا ممکنہ طور پر مرکزی ہدف ہوں گے۔‘‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکمنامے کے تحت فوج کی حراست میں موجود 104 ملزمان کا ٹرائل وہیں سے شروع ہو گا جہاں اُسے روکا گیا تھا۔
یاد رہے کہ فوج نے 9 مئی کے ملزمان کی حراست دو طرح سے لی تھی۔ ایسے افراد جو پہلے ہی جیلوں میں تھے انہیں متعلقہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے تحریری حکم ناموں کے ذریعے لی گئی تھی۔جو افراد مختلف تھانوں میں گرفتار تھے انہیں روزنامچوں میں اندراج کے بعد پولیس سے فوج کی حراست میں لے لیا گیا۔ فوج کو مطلوب افراد وہ تھے جو براہِ راست جلاؤ گھیراؤ میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔