کیا الطاف حسین برطانوی عدالت سے بچ جائیں گے؟

لندن کی ایک عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے خلاف اپنے ورکرز کو شرپسندی پر اکسانے کے کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا بانی ایم کیو ایم عدالت کے ہاتھوں بچ جائیں گے یا سزا پائیں گے؟
الطاف حسین کے خلاف زیرالتوا مقدمے کی سماعت 2 فروری کے روز کنگسٹن اپون تھیمز کراؤن کورٹ لندن میں شروع ہوئی تو پراسیکیوشن نے شرپسندی پر اکسانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے اپنے مقدمے کی حمایت میں ثبوت جمع کروائے۔ برٹش ٹیررازم ایکٹ 2006 کے سیکشن 1(2) کے تحت الطاف حسین پر لگے الزام کا تعلق دہشت گردی کی حمایت میں جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے سبب دیے جانے والے ایسے بیان سے ہے جو لوگوں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر جرائم کا ارتکاب کرنے پر اکسانے کا سبب بنے۔
برطانوی پولیس کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو کراچی میں جمع ہونے والے ہجوم کے لیے لندن سے ٹیلی فون پر ایک تقریر کی تھی جس کا مقصد دہشتگردی کی کاروائیوں کی ترغیب دینا تھا۔ الزام میں کہا گیا کہ بانی ایم کیو ایم نے اپنی اس تقریر میں ممکنہ طور پر جان بوجھ کر مجمع کو تخریبی کاروائیوں کی ترغیب دی۔
سماعت کے دوران جیوری کے 12 ارکان نے حلف اٹھایا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے انصاف پر مبنی فیصلہ دیں گے۔ جیوری کو الطاف حسین کے خلاف عائد الزام پڑھ کر سنایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ الطاف حسین نے الزام کی تردید کی ہے۔
جیوری کے اپنی نشستیں سنبھالنے سے پہلے استغاثہ نے بیشتر وقت اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لیے جمع کیے گئے
جسٹس (ر) گلزار احمد کو فول پروف سیکیورٹی دینے کی منظوری
ثبوتوں کو پیش کرنے میں صرف کیا۔ شواہد میں اے آر وائے اور سما ٹی وی چینل کے دفاتر سمیت ضیا الدین احمد روڈ پر واقع رینجرز ہیڈ کوارٹر اور پریس کلب کے نقشے بھی شامل تھے۔ کچھ تصاویر اور ویڈیو فوٹیج بھی عدالت میں جمع کروائی گئیں اور کچھ عدالت میں چلائی بھی گئیں، ان میں پارٹی کی خواتین کارکنان نظر آئیں جنہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا کہ وہ ’اشارے‘ کا انتظار کر رہی ہیں، اس فوٹیج میں الطاف حسین کی آواز اور انکا پیغام بھی واضح تھا۔
استغاثہ نے کہا کہ یہ ثبوت الطاف پر لگے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ کس طرح الطاف حسین کی جانب سے ہجوم کو دی جانے والی ہدایات بعد میں شرپسندی کا سبب بنیں۔ اس تقریر کے بعد شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ایم کیو ایم کارکنان کے مشتعل ہجوم نے ہنگامہ آرائی میں 2 ٹیلی ویژن اسٹیشنز میں توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔
یہ سب مبینہ طور پر اس لیے ہوا کیونکہ الطاف حسین نے اپنی تقاریر کو کوریج نہ ملنے پر میڈیا پر تنقید کی۔ الطاف حسین کا دفاع کرنے والے وکلا نے کچھ فوٹیجز کو عدالت میں جمع کرائے جانے کو چیلنج کیا اور ان کے قابل قبول ہونے پر سوال اٹھایا۔ استغاثہ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدامنی ہوئی، اور ایک ایسی تقریر کی وجہ سے ہوئی جس سے سول آرڈر کو خطرہ لاحق ہوا۔
دونوں فریقین نے مسز جسٹس مے کے سامنے کافی دیر تک شواہد جمع کروانے پر تفصیلی بحث کی جس کے بعد دوپہر سماعت ملتوی کر دی گئی۔ اس کیس کی آئندہ سماعتوں میں جیوری شواہد حاصل کرے گی اور استغاثہ کے دلائل سنے گی۔