36گھنٹوں میں کراچی میں زلزلے کے 19جھٹکے، کیاکوئی بڑا طوفان آنے والا ہے؟

لانڈھی کی تاریخی فالٹ لائن ایکٹو ہو نے کے بعد ایک ہی دن میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے آنے والے زلزلے کے 8 جھٹکوں نے کراچی کے لیے خطرے کی نئی گھنٹی بجا دی ہے۔کراچی میں زلزلوں کے جھٹکے کا سلسلہ اتوار کی شام سے شروع ہوا جس میں ملیر، شاہ فیصل کالونی، لانڈھی، کورنگی، جعفر طیار اور بکرا پیڑی کی طرف جھٹکے محسوس کیے گئے جس کے بعد آفٹر شاکس محسوس کیے جاتے رہے۔ زلزلے کے مسلسل جھٹکوں سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
محکمہ موسمیات جواد میمن نے بتایا کہ ’کراچی میں اتوار اور پیر کے دوران آٹھ مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔‘ یکم جون کو شام 5:30 بجے اور دو جون کو رات ایک بج کر 9 منٹ سے صبح 11 بجے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔بقول جواد میمن: ’ان زلزلوں کی شدت زیادہ نہیں تھی اور ریکٹر سکیل پر 3.2 سے 3.6 تک ریکارڈ کی گئی لیکن ان کا تسلسل لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔کراچی میں اتوار کی رات اور پیر کے روز وقفے وقفے سے متعدد بار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے جس نے شہر کے باسیوں کو بار بار گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا اور اکثر نے گھبراہٹ میں یہ سوال پوچھا کہ کیا یہ کسی بڑے زلزلہ کا عندیہ تو نہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں پہلے کبھی زلزلہ نہیں آیا لیکن اتنے کم دورانیے میں بار بار آنے والے زلزلوں نے کراچی والوں کو پریشان کر دیا ہے۔اگرچہ ان زلزلوں کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن ایک تو کراچی کافی گنجان آباد علاقہ ہے اور بڑے زلزلے کی صورت میں یہاں نقصان کا خدشہ بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور دوسرا یہ ساحلی شہر ہے اس لیے سونامی کے خطرے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ وہ خدشات ہیں جو کراچی والوں کو پریشان کر رہے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں مسلسل آنے والے زلزلے کے جھٹکوں کی اصل وجہ کیا ہے اور کیا کراچی میں آنے والے یہ زلزلے واقعی پریشانی کی بات ہیں؟
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے چیف میٹرولوجسٹ عامر حیدر لغاری کے مطابق کراچی میں بار بار زلزلے کے جھٹکے آنا کوئی پریشانی کی بات نہیں اور ایک دو دن میں یہ صورتحال ٹھیک ہو جائے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’لانڈھی کی تاریخی فالٹ لائن ایکٹو ہو گئی ہے اس لیے زلزلے محسوس ہو رہے ہیں۔‘انھوں نے وضاحت کی کہ ’جب کوئی فالٹ لائن ایکٹو ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ انرجی ریلیز کرتی ہے۔ انرجی کم ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ یہ جھٹکے کم شدت کے ہو جاتے ہیں اور رک جاتے ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’یہی وجہ ہے کہ اتوار کی رات سے ہلکے زلزلے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی بڑا ایونٹ نہیں تھا۔ کم شدت کے زلزلے ایک سے دو دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ماہرین کے مطابق فالٹ لائن زمین کی سطح یا زیر زمین وہ دراڑ یا شکن ہے جہاں زمینی پلیٹس یا زمین کے بڑے ٹکڑے ایک دوسرے کےمقابلے میں حرکت کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کا فاصلہ ہوتا ہے جس پر زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ رگڑ کھاتے یا سرک جاتے ہیں جس سے زلزلے پیدا ہو سکتے ہیں۔فالٹ لائن پر جب زمین کے ٹکڑے اچانک حرکت کرتے ہیں تو اس سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔
چیف میٹرولو جسٹ عامر حیدر لغاری نے مزیدبتایا کہ ’ضروری نہیں کہ زلزلے کا مقام فالٹ لائن کے اوپر ہو، ایکٹو فالٹ لائن کہیں سے بھی اپنی انرجی ریلز کر سکتی ہے۔ کراچی میں آنے والے یہ زلزلے لانڈھی کے نیچے موجود فالٹ لائن کی وجہ سے ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ کراچی میں تاریخی طور پر کبھی کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ اگرچہ’سومیانی کے پاس تین پلیٹوں کا جنکشن موجود ہے لیکن وہ زیادہ خطرناک نہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ اگر پاکستانی کے جنوبی علاقوں میں کہیں بڑے زلزلے کا امکان ہوا بھی تو وہ کراچی نہیں ہو گا۔’بلوچستان میں سمندر میں عریبین اور یوریشین پلیٹ کی سرحد ہے وہ خطرناک ہے۔ جہاں زلزلہ سونامی بن سکتا ہے۔ لیکن کراچی والی ٹیکٹانک پلیٹس خطرناک نہیں۔‘چیف میٹرولوجسٹ عامر حیدر لغاری کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں آنے والے زلزلوں کا مرکز سطح زمین سے کم گہرائی پر تھا تاہم اس شدت کے زلزلے میں جانی نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی عمارتیں گرتی ہیں۔‘
دوسری جانب ماہرین کا ماننا ہے کہ کراچی تین پلیٹس یعنی انڈین، یوروشیا اورعریبین کی باؤنڈری پر واقع ہے اور اس کی ساخت نہ صرف زلزلوں سے نسبتاً محفوظ ہے بلکہ یہ سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے یہ چھوٹے زلزلے دراصل فالٹ لائن سے انرجی ریلز ہونے کی وجہ سے ہیں تاہم بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ کراچی کی تعمیرات خود نقصان کی وجہ بن سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دو تہائی علاقہ ممکنہ طور پر زلزلے کے خطرے میں رہتا ہے۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے ملک کو زلزلوں کے حوالے سے چار زونز میں تقسیم کر رکھا ہے۔زون ون میں زلزلے کے امکانات کم سمجھے جاتے ہیں۔ زون ٹو میں زلزلے کے کچھ امکانات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں پنجاب کے میدانی علاقے اور وسطی سندھ شامل ہیں۔
زون تھری میں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات سمجھتے جاتے ہیں۔ ان میں کراچی، بلوچستان، سکردو، سوات، پشاور، میدانی ہمالیہ کے علاقے آتے ہیں۔جبکہ زون فور کے اندر انتہائی خطرے کا شکار علاقوں میں پوٹھوہار، کشمیر، ہزارہ، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ اور ہمالیہ کے پہاڑی علاقے آتے ہیں۔
ہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر زمین پر زلزلے آتے کیوں ہیں؟ماہرین کے مطابق: ’زلزلے زمین کی سطح کے اچانک ہلنے یا کپکپانے کو کہتے ہیں، یہ عام طور پر زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے آتے ہیں۔ زمین کی سطح کئی بڑی اور چھوٹی پلیٹوں پر مشتمل ہے جو آہستہ آہستہ حرکت کرتی رہتی ہیں جب یہ پلیٹیں آپس میں رگڑ کھاتی ہیں، ٹکراتی ہیں یا ایک دوسرے کے نیچے دب جاتی ہیں تو زمین کے اندر بہت زیادہ توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ جب یہ توانائی اچانک خارج ہوتی ہے، تو زلزلہ آتا ہے۔ ۔