پاک افغان رابطے بہترہونےکےباوجود TTPاورBLAبے لگام کیوں؟

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے باوجود سرحد پار سے دہشتگرد حملے تاحال جاری ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 19 اپریل کو پاک، چین افغانستان مذاکرات کے بعد سے پاکستان میں فتنۃ الخوارج کی جانب سے کئی دہشتگرد حملے کیے گئے جن میں کئی سکیورٹی اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے۔ اس حوالے سے پاکستان کا مؤقف بڑا واضح ہے کہ فتنۃ الخوارج یعنی تحریک طالبان پاکستان اور فتنۃ الہندوستان یعنی بی ایل اے کو بھی کچھ مدد افغانستان سے ملتی ہے۔ اور 21 مئی جس دن اسحاق ڈار چین سے اپنا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچے اُسی دن پاکستان میں خضدار میں فتنۃ الہندوستان کی جانب سے ایک سکول بس پر خوفناک دہشتگرد حملہ کیا گیا جس میں اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشتگرد حملے کیے گئے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان سے تعلقات بہتر ہونے کے باوجود ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔
خیال رہے کہ 15 اگست 2021 کے بعد جب طالبان نے افغانستان میں زمام اقتدار سنبھالی تو توقعات کے برعکس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ رہے جس میں پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کئی مواقع پر پاکستان نے دہشتگردی کے بڑے واقعات کی افغانستان میں منصوبہ بندی اور افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں کے ثبوت بھی افغان حکام اور عالمی پلیٹ فارمز پر پیش کیے جن میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی شامل تھا۔
اس کے علاوہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کئی سرحدی تنازعات بھی ہوئے جس سے دونوں اطراف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اورافغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی پشت پناہی اور دراندازی نہ روکنے کے متواتر واقعات کے بعد پاکستان نے اگست 2023 میں افغان پناہ گزینوں کی ملک سے بیدخلی کا فیصلہ کیا۔ تاہم 19 اپریل 2025 کو نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ کابل کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ اس کے بعد 19 سے 21 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان چین کی میزبانی میں سہ فریقی مذاکرات کے بعد سے ماحول میں مزید بدلاؤ آیا۔ بیجنگ مذاکرات میں دیگر اقدامات کے علاوہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں گے اور دہشتگردی کے روک تھام کے لیے مل کر کام کریں گے۔ تاہم اس کے باوجود سرحد پار سے دہشتگردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں کمی لا سکیں گے؟
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا عمل جاری تھا جس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔اب یہ پراسیس جوں جوں آگے چلے گا تو تعلقات میں مزید بہتری اور مزید مضبوطی آئے گی۔ داعش، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات میں ملوّث ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف درّانی نے کہا کہ یہ تنظمیں انڈر گراؤنڈ ہیں، یہ معصوم شہریوں کو ہلاک کر کے حکومتوں یا ملکوں کے لیے مشکلات تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا علاقہ موجود نہیں جہاں ان کی حکومت ہو۔ ریاستی ڈھانچہ ان دہشتگرد تنظیموں سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ تنظیمیں آج وجود میں نہیں آئیں بلکہ یہ دہائیوں سے کام کر رہی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیخ کنی کا طریقہ کار وضع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سہ فریقی فورم کے ذریعے پاک افغان باہمی تنازعات کے حل کا طریقہ کار بھی وضع ہو رہا ہے اور جس طرح سے افغانستان کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو یہ چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ باہمی مسائل کے حل میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔
دوسری جانب ماہر افغان اُمور اور نامور صحافی فخر کاکاخیل نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں مثبت پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ افغان طالبان حکومت جسے ایک وقت دنیا میں کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اب روس، چین، پاکستان، اُزبکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک اُسے تسلیم کر چُکے ہیں جو ایک اہم تبدیلی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں بہتری کے باوجود دہشتگردانہ کارروائیوں بارے سوال کے جواب میں فخر کاکاخیل کا کہنا تھا کہ چاہے وہ فتنۃ الخوارج تحریک طالبان پاکستان ہو، داعش، فتنۃ الہندوستان بی ایل اے یا ای ٹی آئی ایم، یہ سب پراکسیز ہیں یعنی مختلف ممالک سے پیسے لے کر دہشتگرد کارروائیاں کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان، ایران، افغانستان، چین یا وسط ایشیائی ریاستوں سمیت تمام علاقائی ممالک ان پراکسیز کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ جس سے کگتا ہے کہ ان پراکسیز کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان پراکسیز کی کارروائیوں کو روکنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان پراکسیز پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن علاقائی ممالک ان پراکسیز پر قابو پانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ جس کے جلد نتائج سامنے آنا شروع ہو جائینگے۔