کیا تحریک طالبان کے پی کے میں انتخابات نہیں ہونے دے گی؟

کے پی کے اور بلوچستان میں حالات بہت خراب ہیں۔ بات صرف پاک فوج اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان لڑائی کی نہیں ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کو چن چن کو مارا جا رہا ہے۔ اس وقت عملی صورتحال ایسی ہے کہ خیبرپختونخوا میں کوئی بھی امیدوار اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ ٹی ٹی پی نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے وہ ہر انتخابی سرگرمی کو نشانہ بنائیں گے۔ ایسے میں کوئی ووٹ مانگنے کے لیے باہر نہیں نکل سکتا ہے اور خدشہ ہے کہ کوئی ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکل سکے گا. ان خیالات کا اظہار جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا. سینئر صحافی مزمل سہروردی اس ملاقات کا احوال اپنے ایک کالم میں بیان کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ نجاب میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہاں اس وقت کیا صورتحال ہے اور اس کا نیشنل میڈیا میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر سچ جانیں تو میں بھی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ میرے لیے بھی اپنے حلقہ انتخاب میں کسی بھی قسم کی کوئی انتخابی سرگرمی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ایسے ماحول میں جب کوئی انتخابی مہم ہی ممکن نہیں تو شفاف انتخابات کیسے ممکن ہیں۔ مولانا نے کہا کہ کے پی میں تو صورتحال یہ ہے کہ جب حکومت ترقیاتی کام کے لیے کوئی ٹینڈر کرتی ہے تو جب تک ٹھیکیدار دس فیصد ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈر کو نہیں دیتا‘ وہ وہاں کام نہیں کر سکتا۔ حکومت ٹینڈر دیتی ہے‘ پیسے دیتی ہے لیکن کام تحریک طالبان کی مرضی اور اجازت سے مشروط ہے۔ اسی لیے اب ہر ٹینڈر میں ٹھیکیدار ان کا دس فیصد رکھتا ہے۔ اس کا سب کو پتہ ہے۔ کھلے عام دیا جاتا ہے۔ جو نہیں دیتا وہ کام نہیں کر سکتا۔ہم مانتے نہیں ہیں لیکن ان کا کنٹرول موجود ہے۔ انھوں نے کہا میری پہلی دن سے رائے تھی کہ فاٹا کا انضمام غلط فیصلہ ہے۔ پہلے وہاں ترقیاتی کام کرنے چاہیے تھے۔ فاٹا کو باقی علاقوں کے برابر لانا چاہیے تھے پھر اس کا انضمام ہونا چاہیے تھا۔ آپ دیکھ لیں اس کے بعد بھارت نے کشمیر میں ایسے ہی کیا۔ آپ مقامی لوگوں کی رائے لے لیں لوگ اس انضمام کے حق میں نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے مطابق ہم پہلے دن سے 2018 کے انتخابات کے نتائج ماننے کے خلاف تھے۔ مجھے چیئرمین سینیٹ کا لالچ بھی دیاگیا لیکن میں نے دھاندلی کے نتائج ماننے سے انکار کیا۔ میں چیئرمین تحریک انصاف کو سیاستدان نہیں مانتا۔ وہ بیرونی ایجنٹ تھے۔ ان کے دور میں بیرونی ایجنڈے کی سب سے زیادہ تکمیل ہوئی۔ یہی پاکستان کی تباہی کا باعث بن گیا۔ وہ ہر وقت امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مفاد اہم نہیں تھا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات پاکستان کی زندگی ہیں۔ ہم انتخابات کے خلاف نہیں ہیں۔ انتخابات سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن انتخابات کے لیے ایک ماحول بھی ضروری ہے۔ ہمیں ووٹ مانگنے کا موقع ملنا چاہیے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملنا چاہیے۔
انتخابات کب ہونگے کے جواب میں انھوں نے کہا حلقہ بندیوں کی آئینی ضرورت پورے ہونے کے بعد انھیں امید ہے کہ فروری میں انتخابات ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم کا استعفوں کا فیصلہ عدم اعتماد سے بہتر تھا۔ اگر ہم سب مستعفیٰ ہو جاتے تو عمران خان کی حکومت خود بخود گر جاتی۔ سندھ اسمبلی ٹوٹ جاتی۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی بڑی اکثریت مستعفیٰ ہو جاتی تو نہ صرف عمران خان گر جاتے بلکہ انتخابات بھی ہو جاتے۔تاہم پیپلزپارٹی عدم اعتماد کے حق میں تھی مجبوراً ہمیں ماننا پڑا۔ عدم اعتماد میں جب ایم کیو ایم اور باپ پارٹی آگئی تو وہ کوئی فوری انتخابات کے لیے نہیں آئے تھے۔ وہ آئے تو مدت تو پوری ہونی تھی۔ انھوں نے ہمیں قومی اسمبلی توڑنے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔ا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن وہاں سے جنگجو گروپ ختم نہیں ہوئے۔ ہمیں ان جنگجوؤں کو دوبارہ جنگ کا میدان نہیں دینا ہے۔ کیونکہ ان جنگجوئوں کو جنگ کے سوا کچھ نہیں آتا۔ وہ جنگ کی تلاش میں ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔