میثاق جمہوریت کا جنازہ نکالنے کا اصل ذمہ دار کون؟

ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے مل کر چلنے کے عہدوپیمان باندھنے والی نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔
سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جانب سے عمومی طور پر میثاق جمہوریت کو شاندار کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ فوجی حمایت یافتہ حکومت کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی فوج کی مدد سے اقتدار میں آئیں گے یا کسی جمہوری حکومت کا تختہ گول کریں گے۔ میثاق جمہوریت میں مزید لکھا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی موقع یعنی لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کو یقینی بنایا جائے گا اور اس مقصد کیلئے تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد اور تمام سیاسی جلاوطن افراد کو غیر مشروط طور پر واپس آنے کا موقع دیا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔‘‘ نگراں حکومتوں کی غیر جانبداریت کے حوالے سے میثاق جمہوریت میں لکھا ہے کہ نگراں حکومت نیوٹرل ہوگی تاکہ آزاد، شفاف اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔ ایسی نگران حکومت کے ارکان اور ان کے خاندان کے ارکان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
انصار عباسی کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے اس دستاویز کو نظر انداز کیا ہے یا پھر اس کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ سب سے بڑی خلاف ورزی پرویز مشرف کا پیپلز پارٹی کیلئے این آر او تھی، اس کے بعد یہ معمول بن گیا اور میثاق جمہوریت کی کئی اہم شقوں کی فاش خلاف ورزی ہوتی رہی۔ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے میثاق جمہوریت کی جس شق پر عمل نہیں کیا گیا اس میں لکھا ہے کہ ’’آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیاں بالترتیب وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزارت دفاع اور کابینہ ڈویژن کے ذریعے منتخب حکومت کو جوابدہ ہوں گی۔ متعلقہ وزارت کی جانب سے بجٹ کی تیاری کے بعد اس کی منظوری ڈی سی سی کے ذریعے ہوگی۔ دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیاسی ونگز کو بند کر دیا جائے گا۔ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی تاکہ مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں میں اضافی ملازمین میں کٹوتی کی جا سکے۔ ان ایجنسیوں میں تمام سینئر عہدوں پر تعیناتی متعلقہ وزارت کے ذریعے حکومت کی منظوری سے ہوں گی۔ میثاق جمہوریت میں یہ بات بھی درج ہے کہ فوجی زمین کی الاٹمنٹ اور کنٹونمنٹ وزارت دفاع کے دائرہ اختیار میں ہوں گے اور ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو زمین کی ایسی تمام الاٹمنٹ کے قواعد ان کے جائز ہونے کا جائزہ لے گا اور ان کی اسکروٹنی کرے گا، ساتھ ہی 12؍ اکتوبر 1999ء کے بعد شہری علاقوں میں اور زرعی زمینوں کی جو الاٹمنٹس کی گئی ہیں ان کے حوالے سے پالیسیوں اور دیگر ایسے کیسز کا جائزہ لے گا تاکہ ان افراد کا محاسبہ کیا جائے جو غلط اقدامات، منافع خوری یا اقربا پروری میں ملوث ہیں۔
انصار عباسی کے بقول میثاق جمہوریت پر دستخط کے باوجود، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کے دوران طرز حکمرانی یعنی گورننس خراب رہی۔ تاہم، دونوں جماعتوں نے وعدہ کیا تھا کہ طرز حکمرانی کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ عام آدمی کیلئے حالات بہتر ہوں، انہیں معیاری سوشل سروسز تک رسائی دی جا سکے جن میں تعلیم، صحت، ملازمتوں کی تخلیق، مہنگائی کی روک تھام، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام، اور سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں پرتعیش نوعیت کے اخراجات کو کنٹرول کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں کیونکہ یہ صورتحال عوام میں غم و غصہ کا سبب بنتی ہے۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ حکومت میں ہر سطح پر سادگی اختیار کی جائے گی۔ دونوں جماعتیں نیب میں اصلاحات لانے میں بھی ناکام ہوگئی ہیں حالانکہ دونوں نے میثاق جمہوریت میں وعدہ کیا تھا کہ نیب اور احتساب کے دیگر اداروں میں ایسے افراد کی نشاندہی کرکے انہیں کٹہرے میں لایا جائے گا جو ادارے کے قیام سے لیکر جھوٹ بول کر یا پھر دیگر اقدامات کے ذریعے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ میثاق جمہوریت میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ سیاسی طور پر متحرک قومی احتساب بیورو یعنی نیب کی جگہ آزاد احتساب کمیشن لایا جائے گا۔ میثاق جمہوریت میں ایک شق یہ بھی تھی کہ تمام فوجی اور عدالتی افسران پرلازم ہوگا کہ وہ ارکان پارلیمنٹ کی طرح اپنے اثاثہ جات اور آمدنی کے حوالے سے سالانہ گوشوارہ جمع کرائیں تاکہ انہیں بھی عوام کے سامنے جوابدہ کیا جا سکے۔ تاہم دیکھا جائے تو دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد میں یکسر ناکام رہی ہیں۔