کیا شیر افضل مروت کا انجام بھی شیدے ٹلی جیسا ہونے والا ہے؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ہاتھوں اپنی رہی سہی ساکھ اور عزت کا جنازہ نکلوانے والے شیر افضل مروت کے آج کل ٹی وی چینلز پر خوب چرچے ہیں ۔ جہاں ایک طرف شیر افضل مروت کو بے عزت کر کے پارٹی سے بے دخلی کے فیصلے کو پی ٹی آئی میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا نقطہ آغاز قرار دیا جا رہا ہے وہیں متعدد یوتھیے رہنماؤں نےشیر افضل مروت کو پی ٹی آئی سے نکالنے کے عمران خان کے فیصلے پر پہلی باربغاوت کر دی ہے اور عمران خان سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ دوسری جانب شیر افضل مروت نے پارٹی سے نکالے جانے کے فیصلے کے بعد خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عمرانڈو رہنماؤں کے کرتوت سامنے لا کر انھیں ننگا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے بعد ٹی وی چینلز پر ان کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی سے بے دخلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال بارےسینئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ وہ آج تک شیر افضل مروت سے کبھی نہیں ملے تاہم وہ ان دنوں ٹی وی سکرینوں پر  بہت رش لے رہے ہیں۔ کئی ساتھی توسنجیدگی سے یہ سوچنا بھی شروع ہوگئے ہیں کہ شاید ان کی وجہ سے تحریک انصاف میں شدید اختلافات پیدا ہوجائیں گے جو بالآخر عمران خان کو کمزور کرنے کا باعث بن جائیں اور عمران خان اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو جائیں۔ نصرت جاوید کا مزید کہنا ہے کہ ایسے دوستوں سے درخواست ہے کہ 1970ء کی دہائی کا آغاز یاد کرلیں۔ ان دنوں فیصل آباد لائل پور تھا۔ وہاں ایک صاحب ہوتے تھے مختار رانا۔ جوش وجذبے سے بھرپور انقلابی تھے۔ 1970ء کے انتخاب میں انہوں نے ریکارڈ توڑ ووٹ لئے۔ اپنی ’’عوامی مقبولیت‘‘کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو کو مگر سمجھانا شروع ہوگئے کہ ’’خالص انقلاب‘‘ کیا ہوتا ہے۔ ان سے ’’انقلاب‘‘ سیکھنے کے بجائے بھٹو صاحب نے انہیں گرفتار کروادیا۔ گرفتاری کے دوران یہ ’’انقلابی‘‘ کئی مہینوں تک لاہور کے میوہسپتال کے ایک وی آئی پی وارڈ میں گرفتار رہے۔ میں بطور طالب علم گورنمنٹ کالج سے نکل کر اکثر ان سے ملنے چلا جاتا۔ ان کی تنہائی سے خوف محسوس ہوتا۔ بالآخر رانا صاحب ایک روز خاموشی سے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔ وہاں کے محکمہ ڈاک کے ملازم ہوگئے اور بقیہ عمر گمنامی کی نذر کردی۔ نصرت جاوید کے بقول ان کی نظر میں شیر افضل مروت کی شہرت بھی عارضی ہے۔ ربّ کریم انہیں حفظ وامان میں رکھے اور انھیں شیخ رشید اور مختار رانا جیسے انجام سے بچائے۔

نصرت جاوید کے مطابق ریٹنگز کے حصول کیلئے بے قرار ٹی وی چینلز کے اینکرز کو ان دنوں شیر افضل مروت ویسے ہی مطلوب ہیں جیسے کسی زمانے میں ’’غریب کی چھت‘‘ کے بارے میں منافقانہ ٹسوے بہانے والے راولپنڈی کے ترجمان شیخ رشید ہوا کرتے تھے۔ نصرت جاوید کے مطابق 2008ء میں کافی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پیپلز پارٹی چند دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی خاطر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے اسے للکارنا مناسب تصور نہیں کیا۔تاہم ایسے میں 2008ء کا انتخاب ہارے لال حویلی سے ابھرے دانشور، ٹی وی اینکروں کو ون-آن-ون انٹرویو کے لئے میسر ہونے لگے۔ تاہم وہ ٹی وی چینلز کو وقت دینے کے لئے مقبول اداکاروں والے نخرے دکھاتے تاہم تھوڑے سے منتوں ترلوں کے بعد مان جاتے۔ نصرت جاوید کے مطابق اس وقت شیخ رشید سے گفتگو کے ذریعے اپنے پروگراموں کی رونق لگانے والے ساتھیوں نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا تھا کہ نام نہاد گیٹ نمبر4کے اس دائمی وفادار کو کس نے یہ ’’اجازت‘‘ دی ہے کہ وہ ٹی وی سکرینوں پر دندناتے ہوئے جنرلوں کو یہ طعنے دے کہ وہ ’’ستوپی کر سورہے ہیں‘‘ جبکہ ملک لٹ رہا ہے۔ نصرت جاوید کا مزید کہنا ہے کہ ٹی وی پر ایسی دہائی ڈیپ سٹیٹ کے سازشی ایوانوں کی تھپکی کے بغیر مچائی ہی نہیں جاسکتی۔تاہم اس وقت سادہ لوح ٹی وی کے اوسط ناظر مصر رہتے کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھا منہ پھٹ شیخ رشید ٹی وی پر گفتگو کے ذریعے ہم ’’غریبوں کے دل کی بھڑاس نکال دیتا ہے‘‘۔

نصرت جاوید کے بقول 2008 میںغریب کے دل کی بھڑاس نکالنے والا شیخ رشید جس کے لئے ’’جیل سسرال کا درجہ‘‘ رکھتی تھی عمران حکومت کے خاتمے کے بعد ’’چلّے‘‘ پر چلا گیا۔ انھوں نے چلّہ سے جورہنمائی حاصل کی اس کی بدولت شیخ رشید نے 2024ء کا انتخاب لڑا۔ امید تھی کہ ’’لال حویلی کے فرزند‘‘ کو شہر والے کھلے دل کے ساتھ آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب کرلیں گے۔ تاہم انگریزی کے ایک مقولے کے مطابق آپ عمر بھر کیلئے تمام لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ لہٰذادورِ حاضر کے عقل کامل بنے چرب زبان شیخ رشید کا وقت بھی پورا ہوگیا۔اس لئے آج کل شیخ رشید سیاست سے کنارہ کش ہو کر ان دنوں بازار میں کھڑے ہوکر توے پر لگائے پراٹھوں کو تاؤ دے کر تصویریں بنواتے نظر آتے ہیں۔ نصرت جاوید کے مطابق توے پر پراٹھے بناتے ہوئے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے شیخ رشید اپنی دانست میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ ماضی کی خطاؤں کے ازالے کے لئے ’’تپسیا‘‘سے کام لے رہے ہیں۔تاہم وہ تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے یہ بھول چکے ہیں کہ ’’تپسیا‘‘ کیمروں کے روبرو نہیں تنہائی میں کی جاتی ہے۔

نصرت جاوید کے مطابق وہ شیر افضل مروت بارے بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن زیادہ کالم راولپنڈی کی لال حویلی سے منسوب چرب زبان شیخ رشید کی نذر ہوگیا۔ تاہم شیر افضل کے ذکر سے شروع ہوکر لال حویلی کے چرب زبان شیخ رشید کی طرف مڑجانا فطری ہی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے قطعاََ منطقی بھی ہے۔ نصرت جاوید کے مطابق

بات ریٹنگ سے شروع ہوئی تولاشعور نے فوراََ شعور کو یاد دلایا کہ چند ہی برس قبل ایک اور ’’وکھری ٹائپ‘‘کا چرب زبان شیخ رشید بھی ہواکرتاتھا۔ اس سے ون آن ون کرنا ہمارے کئی پھنے خان اینکر اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھا کرتے تھے۔ شیخ رشید یاد آئے تو موصوف کا زوال بھی یاد آگیا۔ نصرت جاوید کے بقول کاش شیخ رشید کا رویہ انسانی رہا ہوتا تو دل میں ان کے لئے رحم کے جذبات پیدا ہوتے۔تاہم ’’گیٹ نمبر چار‘‘ سے تعلق کی بنیاد پردندناتے ’’ہیرو‘‘ مگر مجھے متاثر نہیں کرتے۔

Back to top button