شہباز حکومت کی فراغت کی جھوٹی افواہیں کون اڑا رہا ہے؟

بیک ڈور مذاکرات، معافی تلافی کی افواہوں اور سوشل میڈیا پر یوتھیوں کے دعوؤں کے برعکس ایک حقیقت بدستور قائم ہے کہ موجودہ سسٹم مضبوط ہے وزیر اعظم شہباز شریف کہیں نہیں جا رہے۔ پی ٹی آئی کی جارحانہ پالیسیوں، معیشت کی سنبھلتی نبض اور سیاسی و عسکری قیادت میں غیر معمولی ہم آہنگی نے اتحادی حکومت کو ایسا سہارا دے رکھا ہے جو مخالفین کے پروپیگنڈے کو بار بار ناکام بنا رہا ہے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ وزیر اعظم کی رخصتی، نواز شریف کی صدارت یا وزیر داخلہ محسن نقوی کی بطور وزیر اعظم تقرری کے دعوے کر رہے ہیں، وہ محض خود فریبی کا شکار ہیں۔ موجودہ سسٹم آئندہ عام انتخابات 2029 تک اپنی جگہ پر قائم رہے گا، بشرطیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہو۔

خیال رہے کہ 13اگست کے روز نائب وزیر اعظم اسحاق ڈانے نے بھی ایسی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ڈس انفارمیشن اور افواہوں سے پرہیز کرنا چاہیے، فیلڈ مارشل عاصم منیر یا نواز شریف کے صدر بننے اور محسن نقوی کے وزیر اعظم بننے کی افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں، موجودہ حکومت یکسوئی سے آگے بڑھ رہی ہے اور مدت پوری کرے گی۔

مبصرین کے مطابق اسحاق ڈار کا دعویٰ قرین از قیاس ہے کیونکہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بیڈ گورننس اور کمزور معاشی حکمت عملیوں نے ملک کو دیوالیہ پن کے قریب پہنچا دیا تھا، مگر موجودہ حکومت کے دور میں نہ صرف معاشی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں۔ بلکہ ڈالر کی قدر بھی مستحکم ہے، مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آ چکی ہے، ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ اور سٹاک مارکیٹ میں نئے ریکارڈ اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ایسے میں حکومت کی تبدیلی کے دعوے محض خواب ہیں۔

معاشی مبصر ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق:”یہ درست ہے کہ معیشت ابھی نازک ہے، لیکن استحکام کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول مزید بہتر ہوگا۔ حکومت نے توانائی اور ٹیکس اصلاحات میں جو اقدامات کیے ہیں، وہ قلیل مدتی سیاسی فائدے کے بجائے طویل مدتی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنا رہے ہیں۔”ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف بھی اپنی رپورٹس میں پاکستانی معیشت میں بہتری کو تسلیم کر چکے ہیں، جبکہ گیلپ انڈیکس کے مطابق کاروباری برادری کا اعتماد چار سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ جس سے حکومت مزید مضبوط ہوئی ہے

حکومتی ذرائع کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان تعلقات خوشگوار اور عملی تعاون پر مبنی ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے حالیہ امریکی دورے میں بھارتی جارحیت کے جواب میں حاصل کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کھلے عام سیاسی قیادت کی دور اندیشی اور استقامت کو سراہا۔سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے:”یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے کہ آرمی چیف نے عالمی فورم پر سیاسی قیادت کی تعریف کی۔ یہ اشارہ ہے کہ ریاست کے دونوں بڑے ستون ایک دوسرے کے اعتماد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں بڑے سیاسی بحران کا پیدا ہونا مشکل ہے۔” ذرائع کے مطابق کچھ حلقے یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ قریب آنے کے باعث اختلافات جنم لے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نومبر 2024 میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ ترمیم کے بعد جنرل عاصم منیر 2027 تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے کیونکہ آرمی ایکٹ، نیول ایکٹ اور ایئر فورس ایکٹ میں ترمیم کے تحت تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کر دی گئی ہے، اور آرمی چیف کی مدت پر عام جنرلز کے قواعد لاگو نہیں ہوں گے۔ یہ قانونی حقیقت کسی بھی سیاسی مفروضے کو فوری طور پر بے بنیاد کر دیتی ہے۔دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق:”قانونی طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت بارے قانون تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لئے اب یہ معاملہ اب کسی قیاس آرائی یا سیاسی سودے بازی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس قسم کی افواہیں صرف سیاسی بیانیے کو گرم رکھنے کے لیے گھڑی جاتی ہیں۔” حقیقت میں اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔

صدر یا وزیراعظم گھر نہیں جا رہے، جنرل عاصم منیر کا واضح اعلان

تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق "یہ درست ہے کہ بظاہر سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آتی ہے، لیکن پاکستان میں تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایسے اتحاد اکثر وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ ایک معمولی پالیسی اختلاف یا غیر متوقع بحران کسی بھی وقت اس توازن کو ہلاکر ایک پیج کو ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے۔” ان کا مزید کہنا ہے کہ "مہنگائی کے سرکاری اعداد و شمار اور عوامی احساسات میں فرق ہے۔ متوسط طبقے اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے حالات اب بھی سخت ہیں۔ معاشی اشاریوں کی بہتری کا مطلب یہ نہیں کہ عام آدمی کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔”مبصرین کے مطابق اگرچہ حکومت اور فوج میں موجودہ ہم آہنگی اور معاشی بہتری حوصلہ افزا ہے، لیکن پاکستان کا سیاسی و معاشی منظرنامہ ہمیشہ غیر متوقع موڑ لے سکتا ہے اور کوئی بھی انہونی موجودہ حکومت کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔

تاہم زیادہ تر سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہو، کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہو رہا ہو، اور سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر ہو، تو نظام کو ڈی ریل کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصر کا بیانیہ محض سوشل میڈیا کے شور تک محدود رہتا ہے۔ حکومت اور عسکری اداروں کی موجودہ ہم آہنگی، معاشی بہتری اور آئینی بندوبست اس بات کا ثبوت ہیں کہ کم از کم آنے والے چند برسوں میں اقتدار کی بساط بڑی حد تک جمی رہے گی۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!