صدر یا وزیراعظم گھر نہیں جا رہے، جنرل عاصم منیر کا واضح اعلان

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی طرح کی سیاسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کی تبدیلی بارے افواہیں فوج اور حکومت کے مخالف عناصر اڑا رہے ہیں جو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے کے بعد ہی ممکن ہے۔

سہیل وڑائج روزنامہ جنگ میں اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ جب سے جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے تھے، غائبانہ طور پر ان بارے تعریفی اور تنقیدی آرا سننے کو ملتی رہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ملاقات میں مجھے 1985 کے بعد سے آنے والے آرمی چیفس کا تقابل پیش کرتے ہوئے مثالوں سے واضح کیا تھاکہ جنرل عاصم منیر ان سب سے مختلف اور بہتر ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ انکی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اِدھر کی دکھا کر اُدھر کو گیند نہیں مارتے اور نہ ہی وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں۔ اسی طرح میرے دیرینہ دوست محسن نقوی بھی ہر ملاقات میں جنرل صاحب کی خوبیوں کا دفتر کھول بیٹھ جاتے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ محسن نقوی رازوں کو گہرائی میں دفن رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ کم گوئی اور خاموشی سے ہر سوال کو ٹالنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، ان کے اندر کے طوفان ان کے چہرے کے تائثرات سے تو عیاں ہو جاتے ہیں مگر خود انکی زبان نہیں کھلتی۔ بطور صحافی میں تجسّس سے مجبور ہو کر محسن نقوی سے دوستانہ اور کبھی کبھی شکوے کے انداز میں کہتا رہا کہ جنرل صاحب سے ملاقات تو کروا دیں۔ وہ جواب میں ہنس کر کہتے میں نے آپ کا پیغام دیدیا ہے مگر وہ صحافیوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ ایک بار محسن نقوی سے اسلام آباد میں تلخ مکالمہ ہو گیا کہ آپ میرا پیغام ہی نہیں پہنچاتے ورنہ ملاقات کیسے نہ ہوتی۔ اگلی صبح محسن نقوی نے بتایا کہ آپکا خط اور پیغام میں نے جنرل صاحب کو پہنچا دیا ہے اور انہوں نے مسکرا کر اسے آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم ملک کے حوالے کر دیا ہے۔ مجھے محسن نقوی کی بات کا یقین نہ آیا اور میں سمجھا کہ یہ بات صرف مجھے ٹالنے کیلئے ہے، اس کے اگلے دن ملائیشیا کے وزیر اعظم کو اعزاز دینے کی ایک تقریب صدارتی محل میں منعقد ہوئی جہاں میری پہلی بار جنرل عاصم منیر سے دعا سلام ہوئی۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ آرمی چیف نے نہ صرف میری جانب سے بھیجا گیا پیغام ملنے کی تصدیق کی بلکہ وقتاً فوقتا میری جانب سے بھیجی گئی درخواستوں کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ ہم جلد ملیں گے۔

بالآخر وہ پہلی ملاقات بیلجیم کے شہر برسلز میں ہو ہی گئی۔ یہ ایک عاجز صحافی اور فیلڈ مارشل کی ملاقات تھی جس میں میرے کھردرے سوالات تھے اور انکے واضح اور شفاف جوابات تھے۔ بات سیاست سے شروع ہوئی اوربالخصوص ان افواہوں پر پہنچی کہ صدرِ اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے طویل نشست میں واضح کیا کہ ایسی تبدیلی بارے افواہیں سراسر جھوٹ ہر مبنی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب خبریں تو سول اور عسکری ایجنسیوں کی طرف سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں دراصل ان کے پیچھے حکومت اور فوج دونوں کے مخالفین اور سیاسی انارکی پھیلانے والے عناصر ہیں۔

جنرل عاصم منیر نے اپنے عزائم بارے کہا کہ ’’اللہ تعالٰی نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے مجھے اسکے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ،میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے۔ جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پر خلوص کام کرنے کو سراہتے رہے۔ انہوں نے کہا جنگ کے دوران وزیراعظم اور کابینہ نے جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اسکی تعریف کی جانی چاہئے۔‘‘ سیاسی حوالے سے کئے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ہی ممکن ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے اپنی تقریر میں قرآن پاک کی ان آیات کا ترجمہ سنایا جو آدم کی تخلیق اور شیطان کے کردار بارے ہے۔ ان آیات سے واضح ہوتا تھا کہ فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا، مگر جب خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے باقی سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کر لیا۔ لیکن شیطان ابلیس نے خدا کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے اختلاف کیا، گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ معاشی بحران کے حل کے حوالے سے آرمی چیف کے پاس پورا روڈ میپ تھا جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کا پلان تھا، انہوں نے حساب لگا کر بتایا کہ اگلے سال سے ریکوڈک منصوبے سے پاکستان کو ہر سال دو ارب ڈالرزکا خالص منافع ہوگا جو ہر سال بڑھتا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے جس سے پاکستان کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور اس کا شمار جلد خوش حال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا۔

بین الاقوامی حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے۔ ’’ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے‘‘۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی امن کی خواہش کو جینوئن قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش میں پہل کی جس کے بعد باقی دنیا ہماری پیروی کر رہی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر ہر موقع پر بھارت اور اس کے ہندوتوا رہنما مودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ برسلز میں بھی انہوں نے جہاں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان کا امن تباہ کرنا بند کر دے وہیں انہوں نے افغان حکومت کو بھی وارننگ دی کہ طالبان کو پاکستان  کی جانب دھکیلنے کی پالیسی بند کی جائے ورنہ ایک پاکستانی کے خون کا بدلہ لینا ہم پر واجب ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانوں پر سالہا سال تک مہربانیاں اور احسانات کئے لیکن افغانستان کی جانب سے اسکا بدلہ چکانے کی بجائے ہمارے خلاف بھارت سے ملکر سازش کی جارہی ہے۔

سینئیر صحافی کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر تکبّر‎ سے کہیں دور ہیں، حالانکہ عام طور پر حکمرانوں اور جرنیلوں کے اردگرد ’’ہٹو بچو‎‘‘ کا شور ہوتا ہے مگر وہ گھنٹوں کھڑے ہو کر کم از کم دو تین سو لوگوں سے ملے، انہوں نے ہر ایک سے مصافحہ کیا انکے ساتھ تصویر بنوائی اور ہر ملاقاتی کے ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا۔ انکے چہرے پر کوفت نہیں بلکہ ہلکی مسکراہٹ تھی۔ ان کو ایک دو ساتھیوں نے مشورہ بھی دیا کہ اتنے ذیادہ لوگوں سے ملنا بدانتظامی پیدا کرے گا مگر انہوں نے عجز سے کہا کہ یہ لوگ بہت دور دور سے آئے ہیں، اور اگر ملنے کے خواہش مند ہیں تو ا نکا دل کیسے توڑا جائے؟ پھر جب تک آخری اوورسیز پاکستانی ان سے ہاتھ ملا کر رخصت نہیں ہوا، عاصم منیر اپنا یہ فرض نبھاتے رہے۔ اس موقع پر ایک سیاسی ورکر نے مجھے کہا کہ’’اتنا حوصلہ تو سیاسی لیڈروں میں نہیں کہ ہر ایک سے ملنا گوارا کریں۔

سہیل وڑائچ  کہتے ہیں کہ ہم سب کی خواہش یہی ہے کہ موجودہ سویلین نظام چلتا رہے اسکو مصلحت اور مصالحت سے مزید نمائندہ بنایا جائے تاکہ واقعی ایک مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔

Back to top button