غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بات کس منہ سے کی جا رہی ہے؟


سینیئر صحافی حامد میر نے وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا ہے کہ وہ کیسے یہ بیان دے سکتے ہیں کہ افغان طالبان نے امریکی غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں کیونکہ غلامی کی یہ زنجیریں تو پاکستانی ریاست نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کو پہنائی تھیں اور ان کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے کپڑے اتار کر انہیں امریکا کے حوالے کیا تھا۔ لہذا ملا ضعیف کے کپڑے اتارنے والے مشرف کے ساتھیوں پر مشتمل کابینہ کے جھرمٹ میں بیٹھ کر جب کوئی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک غیرملکی ویب سائٹ ڈی ڈبلیو اردو کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ صحافی کا کام حقائق سامنے لانا ہوتا ہے اور ایسا کرنے پر کوئی ہم سے ناراض ہوتا ہے تو کوئی خوش ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقریبا دو ماہ قبل افغانستان کے مفرور صدر اشرف غنی بھی مجھ سے تب ناراض ہو گئے تھے جب 22 جون 2021 کو ڈی ڈبلیو اردو میں میرا ایک کالم شائع ہوا، جس کا عنوان تھا، ”افغان طالبان پر پاکستان کا کتنا اثر ہے؟‘‘ اس کالم میں یہ خبر بریک کی گئی تھی کہ افغانستان کے صوبے لوگر کے ضلع محمد آغا کے گاؤں سرخاب میں اشرف غنی کے آبائی گھر پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور اس پر افغان امارت اسلامیہ کا پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ سرخاب دارالحکومت کابل سے صرف تیس کلومیٹر دور ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان کا اشرف غنی کے کچھ قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہے اور وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے اور بہت جلد کوئی بڑا سرپرائز دیں گے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں میرا تجزیہ یہ تھا کہ اشرف غنی کابل کے صدارتی محل سے فرار ہو کر کسی دوسرے ملک میں پناہ لے سکتے ہیں اور طالبان کی بجائے پاکستان پر غصہ نکالیں گے۔ اس کالم کے شائع ہونے پر اشرف غنی کے میڈیا آفس نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا قبضہ نہیں ہے اور اشرف غنی کہیں نہیں جائیں گے اور طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ میں نے صدر غنی کے ترجمان سے کہا کہ آپ اپنا موقف مجھے بھجوا دیں میں کسی اور کالم میں اسے شامل کر دوں گا۔ انہوں نے بڑے تلخ لہجے میں کہا کہ آپ اپنی غلط خبر پر معذرت کریں اور بتائیں کہ سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا قبضہ نہیں ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے لوگر میں ایک افغان صحافی سے پوچھا کہ کیا اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا قبضہ ختم ہو گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ قبضہ برقرار ہے۔ پھر میں نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کے جنگجو ابھی تک سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر موجود ہیں؟ ذبیح اللہ مجاہد نے سرخاب میں اپنے ساتھیوں کی اشرف غنی کے گھر کے اندر ان کے رشتہ داروں کے ساتھ گفتگو کی ویڈیو مجھے بھیج دی۔ میں نے یہ ویڈیو اشرف غنی کے ترجمان کو بھیج دی اور پھر ان کی کال نہیں آئی۔ لیکن حامد میر کے مطابق یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ افغانستان کے مفرور نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ایک ساتھی نے بھی طویل عرصے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ طالبان کبھی مزار شریف اور کابل پر قبضہ نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اشرف غنی کے قریبی ساتھی متحد ہیں اور کسی کا افغان طالبان سے کوئی رابطہ نہیں۔ 15 اگست 2021 کی شام، جب یہ خبریں آنے لگیں کہ طالبان کابل میں داخل ہو چکے ہیں، تو میں نے دوحہ میں طالبان کے ایک رہنما سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ ہنسنے لگے اور کہا کہ آپ سہیل شاہین سے بات کریں۔ سہیل شاہین نے فرمایا کہ ہم طاقت کے زور پر کابل میں داخل نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف طالبان کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کر چکے تھے۔ اشرف غنی یہ کہہ کر بھاگ نکلے کہ میں نے کابل کو قتل و غارت سے بچا لیا۔ طالبان یہ کہہ کر کابل میں آ گئے کہ وہ قتل و غارت اور لوٹ مار روکنے آئے ہیں۔

حامد میر کے مطابق 15 اگست کی رات جب الجزیرہ ٹی وی نے طالبان کو کابل کے صدارتی محل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے دکھایا تو میں اشرف غنی کے اس ترجمان کو ڈھونڈ رہا تھا، جس نے کہا تھا کہ ہم طالبان سے لڑیں گے۔ مجھے کئی افغان صحافیوں نے پوچھا کہ جو خبر 15 اگست کی صبح تک ہمارے لیے ناقابل یقین تھی، وہ خبر آپ نے دو ماہ قبل کیسے بریک کی؟ میں نے بتایا کہ دو ماہ قبل صرف مجھے نہیں بہت سے باخبر لوگوں کو پتا چل چکا تھا کہ افغان طالبان نے پاکستان کے شدید اصرار کے باوجود ترکی میں امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اشرف غنی کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ایک طالبان رہنما نے مجھے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے جو بااختیار لوگ عمران خان اور نواز شریف کی صلح نہیں کروا سکتے وہ کس منہ سے ہمیں اشرف غنی کے ساتھ شراکت اقتدار کا سبق سنا رہے ہیں۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکا کی شکست بہت پہلے ہو چکی تھی۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر اپنے حملے کو صلیبی جنگ قرار دیا تھا اور اس صلیبی جنگ کی اصطلاح کا سب سے زیادہ فائدہ طالبان نے اٹھایا۔ انہوں نے اپنی مزاحمت کو جہاد قرار دیا۔ وہ افغانستان میں اسلامی شریعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملا عبدالغنی برادر برا نہ منائیں تو ان سے سوال ہے کہ اسلام میں عہد پر قائم رہنے کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے پچھلے سال دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے اور وعدہ کیا کہ وہ مذاکرات اور اتفاق رائے سے معاملات طے کریں گے لیکن کیا کابل پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا؟ مجھے امید ہے کہ وہ اشرف غنی کی طرح مجھ سے ناراض نہیں ہوں گے اور اس سوال کا وضاحت سے جواب دیں گے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے دو ماہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ افغان طالبان پر پاکستان کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا۔ عمران خان بھلے کہیں کہ افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئی ہیں اور ڈاکٹر شیریں مزاری بھی افغانستان میں امریکی شکست کا ویت نام میں شکست سے تقابل کرنے میں آزاد ہیں لیکن ہم لوگ مت بھولیں کہ جس پرویز مشرف نے طالبان کے خلاف بمباری کے لیے امریکا کو پاکستانی میں فوجی اڈے دیے، اس مشرف کے بہت سے ساتھی آج عمران خان کی کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
طالبان کی فتح پر جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں خوشی منائیں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن عمران خان یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئیں۔ حامد میر کے مطابق غلامی کی یہ زنجیریں تو پاکستانی ریاست نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کو پہنائی تھیں اور ان کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے کپڑے اتار کر انہیں امریکا کے حوالے کیا تھا۔ ملا ضعیف کے کپڑے اتارنے والے جنرل مشرف کے ساتھیوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر جب کوئی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے آپ کو بے وقوف بنانا بند کیجیے! افغانستان کی فکر چھوڑیے، اپنی فکر کیجیے اور ایسے بیانات نہ دیں کہ دنیا آپ کو ان گناہوں کی سزا دینے پر بھی تل جائے، جو آپ نے نہیں کیے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ مجھے پتا ہے کہ میری تلخ نوائی پر پاکستان کے ارباب اختیار ناراض ہوں گے اور طالبان بھی ناراض ہو سکتے ہیں لیکن کیا کریں؟ ہمارا کام حقائق سامنے لانا اور سوال کرنا ہے، ہم صحافی لوگ ہر وقت ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتے۔

Back to top button