کرنل انعام پر ISI کی جاسوسی کرنے کا الزام جھوٹا ثابت


لاپتہ افراد کے کیسز لڑنے والے سینئیر وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم پر وزارت دفاع کی جانب سے پاکستانی نیوکلئیر پروگرام اور آئی ایس آئی کی حساس معلومات دشمن ملک کو فراہم کرنے کے الزامات تب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے جب وزارت دفاع نے بالآخر یہ کیس ختم کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کرنل انعام سے معافی مانگ لی۔
24 اگست کو کرنل انعام گرفتاری کیس کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ اب اسے انعام الرحیم کی گرفتاری درکار نہیں۔ اس موقع پر ریاست پاکستان کے قانونی نمائندے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں وزارت دفاع کی جانب سے کہا کہ کرنل (ر) انعام کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا اس پر باقاعدہ معذرت کی جاتی ہے۔ تاہم اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کو تشویش صرف لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر تھی کہ فرد جرم عائد ہونے تک گرفتار شخص پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جب گرفتار شخص کو چھوڑ دیا گیا تو مقدمہ بھی غیر موثر ہو گیا۔ چنانچہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی یہی موقف اپنایا کہ جب ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد گرفتار شخص کو چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر ہم اس قانونی نکتے کا فیصلہ کیوں کریں۔ اس مقدمے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
یاد رہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں پیش ہونے والے کرنل انعام کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کے بعد ان کے گھر سے رات گئے اغوا کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں وزارت دفاع نے ہائیکورٹ میں ان کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لینے کا اعتراف کیا تھا۔ انعام الرحیم کو 7 دسمبر 2019 کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا، وزارت دفاع نے چند روز بعد عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ انعام الرحیم ان کی حراست میں ہیں اور ان پر جاسوسی کا الزام ہے۔ انعام الرحیم کے بیٹےحسنین کے مطابق نامعلوم افراد انکے والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر ساتھ لے گئے اور انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر ا کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
یاد رہے کہ وزارت دفاع نے جاسوسی کے الزامات ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد 40 روز سے گرفتار کرنل (ر) انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے روبرو کہا تھا کہ اگر وہ اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ حکام کو دے دیں اور اپنے خلاف جاسوسی کے الزامات پر تحقیقات میں تعاون کریں تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔ کرنل انعام کو لاہور ہائیکورٹ سے ملنے والی ضمانت سپریم کورٹ سے منسوخ کرواتے وقت وزارت دفاع نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کرنل انعام پاکستان کے جوہری پروگرام اور آئی ایس آئی کے حوالے سے حساس معلومات دشمن کو فراہم کر رہے تھے اور اس بات کا ثبوت ان کے لیپ ٹاپ سے ملا ہے۔ بعد ازاں وزارت دفاع نے سپریم کورٹ یہ انکشاف کیا تھا کہ متعلقہ ایجنسیاں تو ابھی تک ان کا لیپ ٹاپ کھول ہی نہیں پائیں۔ لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینے کے بدلے کرنل انعام کی مشروط رہائی کی پیشکش وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں 22 جنوری 2020 کے روز کی تھی۔
یاد رہے کہ کرنل انعام کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں ضمانت منسوخ کرواتے وقت وزارت دفاع نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 22 جنوری کے روز عدالت میں کرنل کے جاسوسی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کرے گی۔ تاہم 22 جنوری کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے وکیل انعام الرحیم کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت شروع کرتے ہوئے وزارت دفاع کے نمائندے سے ثبوت مانگے تو انہوں نے جوابا یہ پیشکش کی کہ اگر کرنل انعام اپنا پاسپورٹ جمع کروا دیں اور اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ ہمیں دے دیں تو ان کو مشروط رہائی مل سکتی ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم بیمار ہیں، انہیں بار بار اسپتال لے جانا پڑتا ہے، وہ اپنا پاسپورٹ جمع کرادیں اورراولپنڈی و اسلام آباد سے بھی باہر نہ جانے کے پابند ہو جائیں تو ان کو مشروط رہائی مل سکتی ہے لیکن اس کیلئے انعام الرحیم کو اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینا ہوگا اور تحقیقات میں بھی تعاون کرنا ہوگا۔
جواب میں انعام الرحیم کے وکیل نے کہا کہ ہم پاسپورٹ جمع کرادیتے ہیں آپ انہیں چھوڑ دیں، انہوں نے کہا کہ ایک ماہ اور آٹھ دن سے انعام الرحیم حراست میں ہیں اور پچھلی سماعت میں یہ ان کو دشمن کا جاسوس قرار دے چکے ہیں اور ثبوت کے طور پر انہوں نے فرمایا تھا کہ کرنل صاحب کے لیپ ٹاپ سے خفیہ اور حساس معلومات ملی ہیں۔ انعام الرحیم کے وکیل نے کہا اب ان کا یہ کہنا ہے کہ انہیں انعام الرحیم کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ چاہیے۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ دراصل سچ کیا ہے۔ اس پر جسٹس مشیر عالم نے حکم دیا کہ انعام الرحیم پاسپورٹ جمع کرادیں اور تحقیقات میں بھی تعاون کریں، لیک وزارت دفاع ان کو رہا کرنے کا سوچے۔ بعد ازاں کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم کو رہا کر دیا گیا تھا اور اب وزارت دفاع نے بذریعہ اٹارنی جنرل انعام رحیم سے معافی مانگ لی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان پر پاکستان کے جوہری پروگرام اور آئی ایس آئی کی حساس معلومات دشمن کو فراہم کرنے کے الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے۔

Back to top button