طالبان کے حمایتی ملک بدر کر کے کابل بھجوا دیے جائیں


معروف اینکر پرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری نے کہا ہے ہمارے بے شمار دانشور طالبان کی واپسی کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ قرار دیتے ہوئے پگڑیوں کے ساتھ تصویریں بھی ریلیز کر رہے ہیں۔ لہازا میری کپتان حکومت سے درخواست ہے کہ اب جبکہ ہمارے ہمسائے میں اسلامی ریاست قیام کے عمل سے گزر رہی ہے، طالبان کے حمایتی تمام پاکستانیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ کابل روانہ کر دیا جائے تاکہ یہ وہاں اسلامی ریاست کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ حکومت انہیں روانہ کرنے کے بعد یہ پر پابندی بھی لگائے کہ یہ لوگ آئیندہ اس کافر ملک میں قدم نہ رکھیں۔ جاوید چودھری کہتے ہیں کہ طالبان کے سحر میں جکڑے یہ پاکستانی افغانستان میں دریائے آمو کے پل پر بیٹھ کر وہاں پیاسے کتوں کی پیاس بجھانے کا بندوبست کریں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چودھری کہتے ہیں کہ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔ بچے ان کے یورپ میں ہیں اور جشن یہ طالبان کی واپسی پر منا رہے ہیں، زندگی یہ فرعون کی گزارتے ہیں اور معجزے یہ حضرت موسیٰ  کے چاہ رہے ہیں۔ ہمیں بہرحال آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی کہ اسلام صرف داڑھی‘ برقعے اور نماز کا نام نہیں ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی کا نام ہے اور ہم لوگ نمازوں‘ برقعوں اور داڑھیوں کے باوجود غیراسلامی زندگی گزار رہے ہیں۔
جاوید چودھری کے مطابق ہماری حالت یہ ہے کہ 14 اگست کو ٹاک ٹاکر عائشہ اکرم کو ذلیل کرنے والوں میں آدھے نوجوان مکروہ حرکت کے بعد نماز ادا کرنے کے لیے بادشاہی مسجد گئے۔ ہم لوگ نماز چھوڑتے ہیں اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ ہی کسی کی املاک کو اور یہ ہیں ہم۔ فرات پر پیاسے کتے بھی گنتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے ہاتھ‘ آنکھ اور زبان سے کوئی خاتون محفوظ نہیں۔
جاوید چودھری عائشہ اکرم نامی لڑکی کے ساتھ مینار پاکستان پر 14 اگست کو پیش آنے والے شرمناک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سینکڑوں بے غیرت نوجوان اس خاتون کو اٹھا اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے۔انہوں نے اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیے اور یہ واقعہ پیش آیا مینار پاکستان یعنی پاکستان کی علامت پر پیش آیا، اور 14 اگست کو یعنی پاکستان کی سالگرہ کے دن آیا۔ جس ملک میں یہ قبیح حرکت ہوئی اسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
جاوید کہتے ہیں کہ خاتون بھی پاکستانی تھی اور اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے بھی پاکستانی۔ آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سسٹم دیکھیں۔ خاتون نے پولیس کو تین بار فون کیا لیکن ہجوم اس کے باوجود اڑھائی گھنٹے عائشہ اکرم کے ساتھ کھیلتا رہا اور پولیس نہیں آئی اور جب آئی تو جنگلے کے دوسری طرف کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہی۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث یہ ہو رہی ہے کہ اس خاتون کو مینار پاکستان پر جانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ اتنی بن ٹھن کر کیوں گئی تھی اور لوگ جب اس کی طرف دوڑے تو یہ وہاں سے بھاگی کیوں نہیں؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ منطق ملاحظہ کیجیے اور یہ منطق کس معاشرے میں بیان کی جارہی ہے، اس معاشرے میں جس میں ہم نے یہ سن سن کر آنکھ کھولی‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک جوان عورت زیورات سے لدی پھدی خراسان تک چلی جاتی تھی اور کسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے اور بتایے ‘دنیا میں اس وقت 58 اسلامی ملک ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک ایسا اسلامی ملک بتا دیں جس میں خواتین برقعے اور گھر میں محفوظ ہوں‘ جس میں کوئی جوان بچی گھر سے نکلتی ہو اور والدین اس کے واپس آنے تک تلوار پر نہ بیٹھتے ہوں جب کہ آپ اس کے مقابلے میں ان تمام کافر ملکوں کو دیکھ لیں جن پر ہم دن رات تبریٰ بھیجتے ہیں اور جنھیں ہم دوزخ کا ایندھن کہتے ہیں‘ ان ملکوں میں کلبوں کے اندر بھی کسی مرد کو جرأت نہیں ہوتی وہ خاتون کی مرضی کے بغیر اسے دیکھ سکے یا اسے چھو سکے۔ جاوید کے مطابق خاوند بھی اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی‘ ہم مسلمان دنیا کی واحد قوم ہیں جس کی مقدس ترین عبادت گاہ (خانہ کعبہ) میں عبادت کے لیے بھی عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی‘ آپ خوف کا عالم دیکھ لیجیے ہماری عورتیں محرم کے بغیر حج اور عمرہ بھی نہیں کر سکتیں جب کہ عورتیں ویٹی کن سٹی سے لے کر لہاسا تک اکیلی جاتی ہیں اور عبادت کے بعد محفوظ واپس آ جاتی ہیں۔
جاوید کہتے ہیں کہ پورے یورپ میں ریپ کی بڑی سے بڑی سزا 15سال قید ہے جب کہ اسلام میں ان لوگوں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے یا گردن اڑا دی جاتی ہے‘ ہم نے کبھی سوچا ہم گردنیں اڑانے‘ پھانسیاں دینے اور سنگسار کرنے کے باوجود خواتین کو کیوں محفوظ نہیں بنا سکے اور یورپ میں ہلکی سزائوں کے باوجود عورتیں نیم برہنگی کے عالم میں بھی راتوں کے وقت سڑکوں پر کیوں محفوظ ہیں؟ صرف سوچ کا فرق ہے۔ ہم مسلمانوں نے آج تک عورت کو جنسی استعارے سے بہتر مقام نہیں دیا جب کہ یورپ میں عورت انسان ہے‘ ہم مردوں کے برابر انسان‘ جاوید چودھری کہتے ہیں کہ آپ المیہ دیکھیے، ملالہ یوسف زئی نوبل انعام کے بعد بھی پاکستان نہیں آ سکتی جب کہ یورپ نے اس مسلمان لڑکی کو نوبل انعام بھی دیا‘ یہ اسے اعلیٰ تعلیم بھی دے رہا ہے اور اسے سیکیورٹی اور عزت بھی۔ اور یہی فرق ہوتا ہے ایک مہذب اور محفوظ اور ایک غیر محفوظ اور غیرمہذب معاشرے میں۔

Back to top button