شاہ محمود کے نخرے اور پروٹوکول وزیراعظم سے بھی زیادہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی سیکرٹری کے درجے کے ایک 22 گریڈ کے سینیئر ترین افسر کو اپنا پرسنل سٹاف افسر لگانے پر خوب لے دے ہورہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جاگیردارانہ مزاج رکھنے والے وزیر خارجہ خود کو وزیر اعظم کے برابر سمجھتے ہوئے اپنے چھوٹے سے دفتر کے انتظامی معاملات چلانے اور اپنی خدمت کروانے کے لیے گریڈ 22 کے افسر سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعظم کا دفتر چلانے والا بیوروکریٹ عموما 20 یا 21 گریڈ کا افسر ہوتا ہے مگر حیران کن بات ہے کہ وزیر خارجہ کو اپنا چھوٹا سا دفتر چلانے کے لیے گریڈ 22 کا افسر چاہیئے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے گدی نشین وزیر خارجہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی زیر نگرانی وزارت خارجہ میں قیمتی انسانی وسائل کا زیاں مسلسل جاری ہے اور انکی زیادہ دلچسپی اس بات میں ہے کہ بڑے گریڈ والے کتنے سینئر افسران انکے ماتحت کام کرتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں اپنے چھوٹے سے دفتر کو چلانے کے لیے برخلاف روایت اور تاریخ میں پہلی بار ایک وفاقی سیکرٹری کے درجے کے 22 گریڈ کے سینیئر ترین افسر کا انتخاب بطور اپنے سٹاف افسر کے کیا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت میں گریڈ 22 کے افسران اس اونچے مقام پر ایک لمبے سفر کے بعد پہنچتے ہیں جس میں کئی مشکل تعیناتیاں اور سخت تربیتی مراحل بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس مقام پر پہنچنے والے افسروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مختلف حکومتی شعبوں کی قیادت کریں گے اور حکومت کو اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر پالیسیاں بنانے میں نہ صرف قیمتی مشورے دیں گے بلکہ ان پر عمل درآمد میں اہم کردار ادا کریں گے۔ گریڈ 22 کا وفاقی افسر ایک وزارت کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور اس وزارت کے تمام اہم پہلوؤں بشمول انتظامی معاملات کے بارے میں فیصلہ سازی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے متعلقہ وزیر کے علاوہ وزیراعظم کی وزارت کے معاملات اور پالیسیوں کے بارے میں براہ راست معاونت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب کسی وزارت میں مختلف وجوہات یا سیاسی حکمت عملی کی بنا پر وزیر نہیں لگایا جاتا اور وزیراعظم وزارت کی براہ راست نگرانی کر رہے ہوتے ہیں تو وفاقی سیکرٹری وزیراعظم کی رہنمائی میں اس وزارت کو براہ راست بھی چلا رہا ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے مطابق ایک وفاقی سیکرٹری نہ صرف انتظامی معاملات میں سربراہ کا کردار ادا کرتا ہے بلکہ وہ وزیراعظم اور متعلقہ وزیر کی اپنے محکمے کے بارے میں پالیسی بنانے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں بھی معاونت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پارلیمان میں پیش کرنے والے قوانین کی تیاری میں بھی رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ وزارت کے تمام مالیاتی وسائل اور ان کے استعمال کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ان اخراجات کی جوابدہی بھی کرتا ہے۔ غرض یہ کہ گریڈ 22 کے افسران کا وفاقی حکومت کے چلانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے اور ان کی قابلیت اور تجربے کے غیر دانش مندانہ استعمال سے نہ صرف وفاقی حکومت کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی وسائل کا ضیاع بھی ہوتا ہے جن کو تیار کرنے میں خطیر مالی وسائل اور دہائیاں صرف ہوتی ہیں۔
تاہم وزرات خارجہ میں شاہ محمود قریشی کی سرپرستی میں 22 ویں گریڈ کے ایک افسر کو سٹاف افسر متعین کرنا نہ صرف اس افسر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے بلکہ قومی وسائل کا ضیاع بھی یے۔ خیال رہے کہ اب تک کی دفتر خارجہ کی تاریخ میں وزیر خارجہ کے دفتر کے معاملات کو دیکھنے کے لیے عموما گریڈ 19 یا زیادہ سے زیادہ گریڈ 20 کے افسران کو تعینات کیا جاتا تھا۔ وزیر خارجہ کا سٹاف افسر بنیادی طور پر ان کے دفتر کے انتظامی امور جن میں ان کے بیرون ملک سفر کے انتظامات، ان کے مہمانوں سے ملاقاتوں کے اوقات کار طے کرنا اور ان کے لیے ضروری کاغذات کا حصول یقینی بنانا شامل ہوتا ہے۔ اگر وزیر خارجہ کسی دفتری معاملے میں مشورہ مانگیں تو اس کی رہنمائی کرنا سٹاف افسر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اگر وزیر خارجہ سیاسی شخصیت ہوں تو یہ افسر ان کے حلقے کے عوام کے مسائل اور ان کے حل میں بھی مدد کرتا ہے۔ لیکن اگر وزیر خارجہ کو کسی پالیسی معاملے میں رہنمائی چاہیے ہو تو سیکرٹری خارجہ اور متعلقہ ایڈیشنل سیکرٹری ضروری معلومات یا تجاویز فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ایک انتہائی سینیئر اور سیکرٹری خارجہ کے ہم پلہ افسر کی وزیر خارجہ کے دفتر کو چلانے کے لیے استعمال کرنا نہ صرف ان قیمتی وسائل کا بظاہر انتہائی غیر دانش مندانہ استعمال ہے بلکہ سیکرٹری خارجہ کے مقابلے میں ایک چھوٹا متوازی دفتر خارجہ کھڑا کرنے کے مترادف بھی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جب گریڈ 22 کے چار افسران اور 21 گریڈ کے 10 افسران وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ کی مدد اور مشاورت کے لیے ہر وقت دستیاب ہیں تو انہیں اپنے دفتر کے معمول کے کام نمٹانے کے لیے 22 گریڈ کے سینئر افسر کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے۔ یاد رہے کہ روایتی طور پر پرائم منسٹر کے پرنسپل سیکرٹریز بھی وزیراعظم ہاؤس میں اپنی تعیناتی کے شروع میں گریڈ 20 اور 21 کے افسر رہے ہیں اور بعد میں اپنی باری پر ترقیوں کے مراحل طے کرتے ہوئے گریڈ 22 تک پہنچے۔ وزیراعظم کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی وزیراعظم کے دفتر میں گریڈ 21 میں تعینات ہوئے تھے۔ ایسے میں یہ عجیب لگتا ہے کہ ملک کے وزیراعظم کا دفتر چلانے والا 20 اور 21 گریڈ کا افسر ہو مگر وزیر خارجہ کا چھوٹا سا دفتر چلانے کے لیے گریڈ 22 کے افسر کی ضرورت ہو۔ لہازا ناقدین کا ہے کہ وزارت خارجہ میں قیمتی انسانی وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے گدی نشین وزیر خارجہ کو اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔

Back to top button