ضمنی انتخاب میں PTI امیدوار دھاندلی کا ذمے دار قرار

الیکشن 2018 میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار لینے کے الزام کا سامنا کرنے والی تحریک انصاف کی ساکھ کو تب ایک اور بڑا دھچکا لگا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ کراچی سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فخر زمان نے دو عہدیداروں کے ساتھ مل کر کرم کے قبائلی علاقے میں این اے 45 کے ضمنی الیکشن میں جعلی پوسٹل بیلٹ کے ذریعے دھاندلی کی کوشش کی تھی۔ 22 ستمبر کو منظر عام پر آنے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق رکن قومی اسمبلی نے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے جعلی پوسٹل بیلٹ ایپلی کیشنز تیار کی تھیں، پولیس کی تفتیش میں تقریباً تمام درخواستوں پر دستخط جعلی پائے گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بہت سے دستخط مردہ افراد یا ریٹائرڈ پولیس افسران کے تھے اور پوسٹل بیلٹ کے درخواست گزار ضمنی انتخابات کے دن ڈیوٹی پر بھی نہیں تھے۔خیبر پختونخوا کے صوبائی الیکشن کمشنر ہارون خان شنواری اور ڈائریکٹر الیکشنز خوشحال زادہ کی جناب سے مرتب کردہ رپورٹ میں فخر زمان کو بنیادی طور پر کرم الیکشن دھاندلی کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے 2017 کے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 175 (بی) کی خلاف ورزی کی ہے۔ یاد رہے کہ اس سال کے اوائل میں 19 فروری کو ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں تحریک انصاف کے فخر زمان امیدوار تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وسطی کرم کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس محمد خان اور اسپیشل برانچ کے اہلکار وصی اللہ نے فخر زمان کے حق میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔
الیکشن کمیشن نے ضمنی الیکشن سے کچھ دن قبل فروری میں دھاندلی کی کوشش کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد پولیس افسران اور سینکڑوں جعلی درخواستوں سے متعلق اسکینڈل میں متعلقہ دیگر افراد کے خلاف محکمہ جاتی انکوائری شروع ہوئی تھی۔
اس وقت پوسٹل بیلٹ کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تقریباً 600 درخواستیں محکمہ پولیس سے این اے 45، کرم -1 میں ضمنی انتخابات کے لیے موصول ہوئی تھیں۔ لہکن انکوائری میں معلوم ہوا کہ یہ سب جعلی ہیں اور ان میں سے دو درخواست گزار مر چکے تھے، اس وقت پانچ افراد بیرون ملک اور بہت سے دوسرے برطرف اور ریٹائرڈ افسران ہیں جبکہ کچھ دیگر نے رضاکارانہ طور پر نوکری چھوڑ دی۔
ان درخواستوں کی جانچ کے دوران یہ پتہ چلا کہ تمام درخواستیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سینٹرل کرم نے بھیجیں کیونکہ ان کا ایک ہی ریٹرن ایڈریس ہے جو سپرنٹنڈنٹ آف پولیس انویسٹی گیشن، صدا، لوئر کرم کا ہے۔ 22 ستمبر کو منظر عام پر آنے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق رکن قومی اسمبلی نے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے جعلی پوسٹل بیلٹ ایپلی کیشنز تیار کی تھیں، پولیس کی تفتیش میں تقریباً تمام درخواستوں پر دستخط جعلی پائے گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بہت سے دستخط مردہ افراد یا ریٹائرڈ پولیس افسران کے تھے اور پوسٹل بیلٹ کے درخواست گزار ضمنی انتخابات کے دن ڈیوٹی پر بھی نہیں تھے۔ تفتیش کاروں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اس تمام معاملے کو فخر زمان نے اپوزیشن کی ایک سازش قرار دیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر جاری کردہ ایک جعلی حکم نامہ بھی پیش کیا جس میں انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اس جعلی حکم نامے کو اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا کہ ان کے مخالفین امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ڈی ایس پی کا تعلق ہے تو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل کرم کے ڈی ایس پی محمدی خان کے دفتر سے نکلے ہوئے پوسٹل بیلٹ پیپرز کے اجرا کے فارم ریٹرننگ افسر کو ڈاک کے ذریعے موصول ہوئے تھے لیکن قانون کے برخلاف دھاندلی کے ہتھکنڈوں کا انکشاف ہوا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ ڈی ایس پی نے اپنے سرکاری عہدے کو استعمال کرتے ہوئے فخر زمان کے حق میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، انہوں نے بغیر تصدیق کے غیر قانونی طور پر تمام درخواستوں پر دستخط کیے اور اس طرح الیکشن ایکٹ کے سیکشن 187 کی خلاف ورزی کی۔ اس دوران وصی اللہ نے بڑی تعداد میں درخواستیں مقامی ڈاکخانہ میں این اے-45 کے آر او کو بھیجنے کے لیے لے کر گئے اور دفعہ 187 کی خلاف ورزی بھی کی۔ رپورٹ میں ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 21 ستمبر کو مقدمے کی سماعت کی اور دوران اجلاس چیف الیکشن کمشنر نے پوچھا کہ کیا مدعا علیہ کو رپورٹ کی کاپیاں ملی ہیں؟۔ فخر زمان کے وکیل نے جواب دیا کہ کاپی مل گئی ہے البتہ اس سلسلے میں مزید تفصیلات درکار ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ اب آپ کو کونسی اضافی دستاویزات کی ضرورت ہے؟ اور جواب دہندہ کو مزید تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔

Back to top button