کیا نواز شریف نے اگلے الیکش کی تیاری شروع کر رکھی ہے؟


لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سیاسی طور پر متحرک ہونے اور مسلسل اپنے مزاحمتی بیانیے پر اصرار کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ اگلے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں یا پاکستان واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) آج کل روزانہ کی بنیاد پر پارٹی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ پنجاب کے مختلف ڈویژن کے منتخب نمائندوں اور ٹکٹ ہولڈرز سے ان کی رائے لی جا رہی ہے۔ نوازشریف اجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور نہایت صبر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی بات سنتے ہیں۔ ان اجلاسون کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے اکثر ورکرز انہیں دو مشورے دیتے سنائی دیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ میاں صاحب واپس آجاؤ، اب دل نہیں لگ رہا، اور دوسرا یہ کہ میاں صاحب ابھی واپس نہ آنا، کیونکہ زمانہ خراب ہے۔ لیکن لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک نوازشریف نے اپنے پارٹی ورکرز کو جتنے بھی خطاب کیے ان میں ان کا رویہ کافی جارحانہ تھا اور انہوں نے کھل کر پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر تنقید کی۔ اپنی تقریروں میں کئی مواقع پر تو نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ آج کے حکمران نہیں جانتے کب ان کا کھیل ختم ہو جائے اور وہ ایک صبح اٹھیں تو انہیں پتہ چلے کہ ان کی فراغت ہو چکی ہے۔
اس دوران مسلم لیگ رہنما جاوید لطیف کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ نوازشریف دسمبر تک وطن واپس آ جائیں گے، لیکن مریم اورنگزیب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ڈاکٹرز ان کو اجازت دیں گے وہ تبھی واپس آئیں گے۔
لیکن لندن سے اس طرح کی خبریں مسلسل آرہی ہیں کہ نواز شریف اگلے چند ماہ میں پاکستان واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ الیکشن اب دور نہیں۔ لیکن نواز شریف کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی پھسلن والی جگہ پر پاؤں نہیں رکھتے اور جب تک انہیں موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے تبدیل ہو جانے کا یقین نہیں ہو گا وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن کچھ تجزیہ نگار ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے اور شاید اسی لیے نواز شریف واپسی کی تیاری کر رہے ہیں انکا کہنا یے کہ نواز شریف کا اسٹائل یہ ہے کہ وہ فیصلہ خود کرتے ہیں لیکن اس کے اعلان کے لیے ماحول ایسا بناتے ہیں کہ ہر بندہ سمجھتا ہے کہ ایسا اصل میں اس کے کہنے پر ہوا ہے۔
لیکن نواز شریف کی زیر صدارت ویڈیو لنک پر پاکستان میں ہونے والے اجلاسوں کے حوالے سے آنے والی خبریں کافی گرما گرم ہیں۔ ان خبروں سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ نواز لیگ کے مفاہمتی اور مزاحمتی دھڑوں میں بیانیے کی جنگ مزید تیز ہوگئی ہے اور اب پہلی مرتبہ شہباز شریف نے بھی کھل کر اپنے بیانیاں پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس کا جواب انہیں نواز شریف کی جانب سے مسلسل مزاحمتی بیانیے کی صورت میں مل رہا ہے۔ ایسے میں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیانیے کی اس جنگ سے جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بیانیے کی یہ جنگ کوئی نوراکشتی ہے جس سے کے ذریعے مسلم لیگی قیادت مفاہمتی اور مزاحمتی دونوں کارڈز استعمال کر رہی ہے۔
نواز شریف کی مستقبل قریب میں وطن واپسی کی افواہوں کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں حالات سازگار نہیں ہوتے، ان کا واپس آنا مشکل ہے کیونکہ ماضی کی طرح بغیر کسی یقین دہانی کے وطن واپسی کی صورت میں انہیں سیدھا جیل جانا پڑے گا جس کا پارٹی کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ تاہم نواز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں صاحب اب مصلحتوں سے بالاتر ہو چکے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ کسی روز اپنے انقلابی بیانیے کے عین مطابق اچانک وطن واپسی کا فیصلہ کر لیں۔

Back to top button