تحریک انصاف کا آئندہ الیکشن سے آوٹ ہونے کا امکان

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سانحہ 9 مئی کے بعد سیاسی حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب عمران خان کے لیے خود کو بچانا تو دور کی بات اپنی 27 سالہ تحریک انصاف بچانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔موجودہ سیاسی صورتحال کے مطابق آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کی شمولیت نا ممکن نظر آتی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کنور دلشاد کا مزید کہنا ہے کہ یہ سیاسی اور انتخابی حقیقت ہے کہ نو مئی کے سانحے نے ملکی سیاست بدل دی ہے ایک طرف جہانگیر ترین الیکٹیبلز کے ساتھ ملکر اپنی نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور جہانگیر ترین کی پارٹی کے مابین انتخابی اتحاد کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں ایسے میں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے نو مئی کے واقعات کو ریاست اور اداروں کے خلاف نفرت اور ملک میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے ان کے ماسٹر مائنڈ کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔اسی پس منظر کی گہرائی کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال یہ ہے کہ اب عمران خان کے لیے خود کو بچانا تو دور کی بات اپنی 27 سالہ تحریک انصاف بچانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

کنور دلشاد کے مطابق قومی انتخابات تک تحریک انصاف کس نتیجہ خیز مرحلے سے گزرے گی کہنا قبل از وقت ہے۔ بظاہر زیادہ امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے جانشین کی حیثیت سے ناکام ہو جائیں گے اور عمران خان کی نااہلیت اور سزا کے بعد ان کی پارٹی خودبخود منتشر ہو کر کئی نام نہاد گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی اور لامحالہ استحکامِ پاکستان پارٹی ہی ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی۔قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ ملک کی تاریخ کا پہلا الیکشن تصور کیا جائے گا جس میں نفرت، الزامات اور افراتفری کی الیکشن مہم نہیں ہو گی اور ہر پارٹی اپنے اپنے تعمیری منشور کو ہی لے کر آگے بڑھے گی۔

جہانگیر ترین کے لیے مشکل مرحلہ پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے سامنے آئے گا جب پارٹی کے ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آئے گا کیونکہ جہانگیر ترین اور ان کے اہم ترین تھنک ٹینک کے ماہرین تحریک انصاف سے آنے والے ارکان اسمبلی کو آئندہ کے لیے ٹکٹ نہیں دیں گے جو ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی تحریک انصاف سے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کو آئندہ کے انتخابات سے باہر رکھنا ہی جہانگیر ترین کے لیے کڑا امتحان ہو گا۔ان ارکان کو بھی جمہوری طور پر آئندہ الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ ان ارکان نے عمران حان کی حکمت عملی اور ریاستی اداروں کے خلاف تحریک چلانے پر پارٹی سے علیحدہ ہونے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ ان کے عزائم میں برابر کے شریک رہے۔ ان ارکان کو آئندہ انتخابات سے باہر ہی رکھا جائے گا اور نئے نوجوان، اور ملک کی بہترین قیادت کو آگے لانے کے لیے جہانگیر ترین کو قربانی دینی پڑے گی۔

کنور دلشاد کا مزید کہنا ہے کہ دوسری طرف اس وقت الیکشن کمیشن کے سامنے حقیقی مسئلہ آزادانہ، منصفانہ انتخابات، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد جلد از جلد انعقاد ہے۔ اشتعال انگیزی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ قومی زندگی کو نقصان ہو گا۔ کنور دلشاد کے مطابق انتخابات کے انعقاد کی مقررہ مدت کو حتمی قرار دینا آئین کی درست تشریح نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی مقررہ وقت کو حتمی اور قطعی نہیں ترجیحی تصور کیا ہے۔ اس ضمن میں نظریہ ضرورت کا اطلاق صریحاً غلط ہے۔ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت آئینی ذمہ داری ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے مطابق بااختیار، مستحکم اور منظم بنانا اوّلین ضرورت ہے۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ عدالت انتخابات کے امور میں الیکشن قوانین کا سختی سے اطلاق کرے۔ عدالت اور عوام کا الیکشن کمیشن پاکستان پر یکساں اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199 جیسی آئینی شقوں پر انحصار قوانین کے یکساں نفاذ میں حائل ہوتا ہے۔

کنور دلشاد کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ بحران جو پارلیمان اور عدالتِ عظمیٰ کے تعطل سے جڑا ہوا ہے، اداروں کی انا کا معاملہ نہیں بننا چاہیے۔ اس پس منظر میں عدالت اور پارلیمان کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا وگرنہ کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا، یہی قدرت کا نظام ہے، قدرت کے نظام میں خلا کا تصور نہیں پایا جاتا۔

Back to top button