کیا تحریک انصاف کے انجام کا وقت قریب آ چکا ہے؟

سیاسی منظرنامے سے پاکستان تحریک انصاف کے “صاف” ہونے کا عمل جاری ہے۔ 9 مئی کا دن پی ٹی آئی کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ 9 مئی عمران خان کی سیاست کے لیے نائن الیون ثابت ہوا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا لیکن واقعات جس تیزی سے رونما ہورہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے فی الحال یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آ

ئی کی گزشتہ گیارہ سال کی پرہنگام سیاست اپنے انجام کو پہنچتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی جاوید فاروقی نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔

جاوید فاروقی کا مزید کہنا ہے کہ تحریک انصاف پر اس کے مخالفین کا یہ الزام رہا ہے کہ یہ بھی ماضی کی طرح اسٹبلشمنت کا ایک ’ بےبی‘ ہے۔ اسے کنگز پارٹی بھی کہا گیا، سلیکٹڈ کا طعنہ بھی ملا ،لیکن اگر ہم ماضی قریب کی کنگز پارٹی مسلم لیگ قاف سے اس کا موازنہ کریں تو دونوں میں فرق بہرحال عمران خان کی شخصیت ہے۔

مسلم لیگ (ق) کی قیادت پہلے میاں اظہر اور پھر چوہدری شجاعت حسین کے پاس رہی۔ جبکہ اس کی حکومت میں پہلے میر ظفراللہ جمالی اور پھر شوکت عزیز وزیراعظم بنائے گئے، درمیان میں ڈیڑھ ماہ کے لئے چوہدری شجاعت نے بھی ایک عبوری مدت کا وزیراعظم بن کر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) میں سیاسی حلالہ کروایا۔ لیکن ان چاروں شخصیات میں سے کوئی بھی اس طرح مقبول عوامی لیڈر نہیں تھا جو عمران خان کا خاصہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کی چھتری ختم ہوتے ہی مسلم لیگ (ق) کا نام و نشان نہ رہا جبکہ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں پارٹی عہدیداروں، سابق ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کی طرف سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کے باوجود یہ ایک سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا عمران خان کی عوامی حمایت میں بھی کوئی کمی آئی ہے؟اس سوال کا جواب عوامی سرویز کی بجائے بیلٹ کے ذریعے ہی سب سے مستند اور معتبر ترین ہوسکتا ہے، لیکن اب تو الیکشن کا اکتوبر میں بھی انعقاد ایک ملین ڈالر سوال بن گیا ہے۔

جاوید فاروقی کے مطابق فی الحال تو 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کی تحلیل کا عمل جس تیزی سے جاری ہے وہ یک طرفہ تماشا بنا ہوا ہے۔ پارٹی میں جس تیزی سے لوگ آئے تھے اس سے دوگنا رفتار سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔ لیکن یہ جا کہاں رہے ہیں ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک ہانکا لگا ہے اور سیاست کے بڑے بڑے جغادری، الیکٹ ایبل، سردار، وڈیرے اور پتہ نہیں کیا کیا تھے اپنے علاقوں حلقوں میں، سب نے دوڑ لگادی ہے۔پارٹی سے علیحدگی اورلاتعلقی کی پریس کانفرنس میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی سینما ہال میں فلم شو کے دوران کسی نے بم کی افواہ چھوڑ دی ہو اور سب اپنی اپنی جان بچانے کے لئے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے ہوں۔

جاوید فاروقی کا مزید کہنا ہے کہ جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو انہوں نے جس غیرسیاسی انداز سے جیتی ہوئی بازی اپنی ضد، انا، ہٹ دھرمی اور غیر سیاسی رویے کی نذر کردی، یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سبق آموز باب ہے۔ ابھی تحریک انصاف کی طرف سے 9 مئی کے غیر ذمہ دارانہ اعمال کا ردعمل چل رہا ہے۔ تاہم ابھی اس ڈرامہ کا دوسرا ایکٹ باقی ہے۔ جس میں بہت سے تشنہ سوالوں کے جواب سامنے آئیں گے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں جس محنت سے نوازشریف کا متبادل تیار کیا تھا اب تحریک انصاف کی تحلیل کے بعد وہ نواز لیگ کو پنجاب میں مکمل فری ہینڈ دے دے گی ؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ آئندہ الیکشن میں عمران خان کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا تو عمران خان کا ووٹ بنک تو موجود ہوگا وہ کہاں جائے گا ؟

گذشتہ ایک ماہ کے دوران دائیں بازو کی دو نئی مذہبی سیاسی جماعتیں نئے سرے سے متحرک ہوگئی ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی تحریک لبیک نے لانگ مارچ کے ذریعے اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ جبکہ حافظ سعید صاحب کے رفقا نے مرکزی مسلم لیگ کے نام سے جماعت رجسٹر کروا کر اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں جبکہ جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے لئے اپنا ڈرائنگ روم کھول دیا ہے۔ اور انھوں نےطبھی ان الیکٹ ایبلز کے ساتھ ایک نئی پارٹی تشکیل دے دی ہے اور آئندہ انتخابات میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ پنجاب سے تحریک انصاف کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ تینوں فیکٹر اور آزاد امیدوار، مسلم لیگ نون کا راستہ روکیں گے، تاکہ عمران خان کی سرکشی سے جان چھڑانے کے بعد نوازشریف کو بھی کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔یہ اندازے اور قیاس آرائیاں کس حد تک درست ثابت ہوتی ہیں یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی میں آپریشن کلین اپ، جاری سیاسی ڈرامہ میں ایک انٹرول ہے۔ دوسرا ایکٹ ابھی باقی ہے۔ ابھی پردہ

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں سرد جنگ گرم کیوں ہونے لگی؟

دوبارہ اٹھے گا۔

Back to top button