پاکستان میں ’’کنگز پارٹی‘‘ کی بازگشت کیوں سنائی دینے لگی؟

2013 اور 2018 کے انتخابات سے قبل اور بعد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑنے والے لیڈر اور الیکٹیبلز کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کو بھی پس پردہ قوتوں کی کرشمہ سازی قرار دیا گیا جوکہ اب استحکام پاکستان پارٹی بننے کے بعد کھل کر سامنے آ گئی ہے کیونکہ وہی لیڈرز اور الیکٹیبلز اب پی ٹی آئی سے استحکام پارٹی میں شامل ہوئے ہیں جس کے بعد کنگز پارٹی کی بازگشت سنائی دی جس کا اعلان عمران خان بھی کر چکے ہیں۔پی ٹی آئی ماضی میں اس تاثر کو مسترد کر تی تھی لیکن موجودہ حالات میں اپنی جماعت چھوڑنے والوں کے کسی’کنگ پارٹی‘ میں جمع ہونے کی بات اب عمران خان بھی کر رہے ہیں اور ایک حالیہ بیان میں انہوں نے اس کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔اتفاق یہ ہے کہ 21 سال قبل مئی کا مہینہ تھا جب پاکستان میں ایک نئی ’کنگز پارٹی‘ کے میدان میں اترنے کی خبر گرم تھی۔ پنجاب کے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ اعجاز شاہ اور آئی جی آصف حیات گورنر پنجاب خالد مقبول کے طیارے پر پنجاب کے بیس اضلاع کا طوفانی دورہ کر کے مقامی انتظامیہ کو بتا رہے تھے کہ کون سی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی ‘چنیدہ’ اور ‘پسندیدہ’ ہے۔2002 میں منظم ہونے والی یہ سیاسی قوت پاکستان مسلم لیگ (ق) تھی جسے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار پر قبضے کے بعد اپنی حکومت کو سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے منظم کررہے تھے۔پاکستان کے ابتدائی دور کی کئی سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرنے والے صحافی اور مصنف منیر احمد منیر کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے ہونے والی محلاتی سازشوں کے نتیجے میں جب لیاقت علی خان کا قتل ہوگیا تو اس کے بعد بیوروکریسی اور فوج مل کراقتدار کے مستقل شراکت دار بن گئے۔ان کے مطابق اس وقت تک مسلم لیگ ہی پاپولر جماعت تھی اس لیے کسی کنگز پارٹی کا تصور نہیں تھا۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا، بیوروکریسی اور فوج کے اس گٹھ جوڑ کے نمائندے بن کر سامنے آئے۔ ان میں سے پہلی بار اسکندر مرزا ہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسمبلی میں جوڑ توڑ کی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ‘ری پبلکن پارٹی’ بنائی جو ملک کی پہلی کنگز پارٹی تھی۔سیاسی تاریخ پر مشتمل کتاب’پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ‘ میں سعید شفقت لکھتے ہیں کہ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے اور اس وقت تک مسلم لیگ کے دھڑوں میں چار رجحانات واضح ہوچکے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک گروہ زیادہ بااختیار مرکز کا حامی تھا۔اس میں زمین دار، شہری پروفیشنلز وکلا اور تاجر وغیرہ شامل تھے۔ دوسری قسم ان مسلم لیگیوں کی تھی جو کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہنا چاہتے تھے۔ تیسرے گروپ میں وہ لوگ تھے جو خود کو مذہبی جماعتوں سے قریب سمجھتے تھے اور چوتھا طبقہ وہ تھا جو فوج کی سرپرستی سے سیاست کرنے کا حامی تھا۔سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی ’کنگز پارٹی‘ یہی الیکٹیبلز ہیں۔ یہ الیکٹیبلز اس وقت بھی سیاست میں رہے جب 1988 میں ضیاء الحق نے اپنی ہی بنائی گئی محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔سعید شفقت لکھتے ہیں کہ فوجی حکومت نے پنجاب میں نواز شریف کی حکومت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور آگے چل کر یہی نواز شریف ،محمد خان جونیجو کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔لاہور یونیورسٹی آف مینجنٹ سائنسز (لمز) سے وابستہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم کے نزدیک 1971 سے 1977 تک ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت پاکستان میں سول سپرمیسی کا دور رہا باقی ادوار میں براہ راست یا پس پردہ اسٹیبلشمنٹ ہی اقتدار کا مرکز رہی۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا میڈیا کسی بھی لفظ یا اصطلاح کو لپکنے کی جلدی میں رہتا ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنگز پارٹی ہمیشہ آمروں نے بنائی۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ’کنگز پارٹی‘ بننے والی سیاسی جماعتیں اپنے بنانے والوں سے نالاں ہوجاتی ہیں یا ان کے اختیار سے نکل جاتی ہیں۔ عاصم سجاد اختر کا کہنا ہے کہ آج جو شکایت پی ٹی آئی کو ہے ماضی میں وہی شکایت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی رہی تھی۔ اس وقت جب جہانگیر ترین متحرک تھے تو پی ٹی آئی اسے اپنی سیاسی برتری سمجھ رہی تھی اور آج صورتِ حال بدل گئی ہے۔

Back to top button