شہباز شریف اس مرتبہ ایک مضبوط وزیر اعظم بن پائیں گے؟

اس مرتبہ پاکستانیوں کو ویسا ہی شہباز شریف بطور وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا جیسا شہبازشریف ہمیں بطور وزیر اعلیٰ دیکھنے کو ملتا تھا۔ سولہ ماہ کی گزشتہ کمزور حکومت کے برعکس اس مرتبہ اسلام آباد اور پنجاب سمیت تین صوبوں میں شہباز شریف کو اپنے حامیوں کا ساتھ میسر ہے. اب کی بار عمران خان بھی وہ فساد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جو انھوں نے شہباز شریف کی سولہ ماہ کی گزشتہ حکومت میں برپا رکھا۔ تحریک انصاف اب ملک میں کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکے گی کیوں کہ آج کی اسٹبلشمنٹ وکٹ کی دونو ں طرف نہیں کھیل رہی سیاسی بحران پیدا کرنے والوں کو اب وہ طاقت حاصل نہیں جو انھیں ماضی میں حاصل تھی . ان خیالات کا اظہار سینئر سیاسی تجزیہ کار مزمل سہروردی نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ شہباز شریف کے لیے اس بار وزارت عظمیٰ قبول کرنا کوئی آسان نہیں تھا۔ انھیں علم ہے کہ اس بار پاکستان معاشی طور پر ایسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ یہاں سے اس کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شہباز شریف کے دوستوں کی جانب سے انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ پنجاب کی حکومت مل گئی ہے لہذا مرکزی حکومت سے جان چھڑا لی جائے۔ جب پیپلزپارٹی اتحاد بنانے میں مشکلات پیدا کر رہی تھی تب بھی یہی مشورہ دیا گیا ۔ لیکن شہباز شریف کا موقف تھا کہ یہ پاکستان ہمارا ہے، اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ جان چھڑا نے سے کیا ہوگا، کیا مسائل حل ہو جائیں گے، اس لیے جان چھڑانا کوئی درست پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے درست اور موثر پالیسی بنانا ہو گی۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترنا چاہیے۔ اگر ہم نے بھی حکومت نہ لینے کا آسان راستہ لیا تو پھر پاکستان کا کیا ہوگا۔ مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی تقریر کے دوران شورکی شدت کے باوجود شہباز شریف نے اپنی تقریر پوری کی ہے۔ انھوں نے عمران خان کی طرح اپنی تقریر آدھی نہیں چھوڑی ، تقریر پوری کی کیونکہ شہباز شریف راستے کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کام پورا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی فرق ہمیں اس بار نظر آئے گا۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ہم نے شہباز شریف کو سولہ ماہ بطور وزیر اعظم دیکھ لیا ہے، جب وہ سولہ ماہ میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے تو اب کیا کر لیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاست کی بجائے ریاست بچانے والی بات کو عام آدمی نہیں سمجھتا، اسے اپنے مسائل سے غرض ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں وہ حکومت کی کوئی توجیح ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پچھلی دفعہ تحریک انصاف نے ہر کوشش کی کہ شہباز شریف کام نہ کرسکیں۔ لانگ مارچ، دھرنے، استعفے اورعدالتوں میں درخواست بازی سمیت وہ سب کام کیے جن سے حکومت چل نہ سکے۔ پہلے صوبائی حکومتوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو نہ چلنے دینے کی پالیسی بنائی گئی۔ پھر صوبائی حکومتوں کو توڑ کر مرکزی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کی پالیسی بنائی گئی۔ پنجاب میں بحران قائم رکھا۔۔ جانے سے پہلے آئی ایم ایف کی ڈیل توڑ دی گئی تا کہ آنے والی حکومت کے لیے مسائل بڑھ جائیں ۔ پھر صوبائی حکومتوں کے ذریعے آئی ایم ایف کی ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی بھر پو رکوشش کی گئی تا کہ وفاقی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔ مزمل سہروردی کا کہناہے کہ جن سولہ ماہ کی سب بات کرتے ہیں ان سولہ ماہ میں شہباز شریف کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ایک طرف انھوں نے سیاسی محاذ پر مسائل کا سامنا کرنا تھا ، دوسری طرف معاشی محاذ پر بھی باردوی سرنگوں سے پاکستان کو بچانا تھا۔ اس لڑائی میں تحریک انصاف کو یصرف اقتدار کی ہوس تھی جس میں وہ اندھے ہو گئے تھے۔انھیں جب بھی انتخابات کی تاریخ کی پیشکش کی گئی انھوں نے قبول نہیں کی کیونکہ وہ شہباز شریف سکون سے ایک ماہ کی حکومت بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ ایک موقع پر عمران خان کی پاکستان میں پانچ حکومتیں تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ اسلام آباد کی حکومت چلی بھی گئی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اسلام آباد کے چاروں طرف میری حکومتیں ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اسلام آباد کی چاروں طرف اسلام آباد کی حا می حکومتیں ہیں۔اس لیے اسلام آباد کی حکومت کسی کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔ مزمل سہروردی بتاتے ہیں کہ اب کی بار سب سے بڑا فرق پنجاب ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد ، دونوں جگہ ن لیگ کی حکومت ہے۔ اس لیے اس بار شہباز شریف کمزور نہیں ہیں، اس لیے اس بار ہمیں ایک مختلف شہباز شریف کو دیکھنے کو ملے گا۔ جیسا شہبا زشریف ہمیں بطور وزیر اعلیٰ دیکھنے کو ملتا تھا۔ ویسا ہی بطور وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔

پہلے حکومت گرانے والے کافی تھے۔ اب گرانے والے خود گر چکے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ بھی چلی گئی ہے جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی تھی۔ ہمیں ماننا پڑے گا جنرل باجوہ کی اسٹبلشمنٹ کی خواہش نے بھی ملک میں سیاسی بحران کو بڑھایا۔ وہ بھی بحران کوقا ئم رکھنا چاہتے تھے۔ اب یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عمران خان کے دونوں لانگ مارچز کے پیچھے وہی تھے، وہ اپنی توسیع کے لیے ماحول کو گرم رکھ رہے تھے۔ عمران خان کو شہباز شریف سے اور شہباز شریف کو عمران خان سے ڈرا کر اپنی توسیع چاہتے تھے۔ جس میں وہ ناکام ہوئے۔ آج کی اسٹبلشمنٹ وکٹ کی دونو ں طرف نہیں کھیل رہی۔ حقیقت یہی ہے کہ شہباز شریف ہی پاکستان کو معاشی مسائل کا حل کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب صرف معاشی مسائل کے حل پر کام ہوگا۔ سیاسی بحران پیدا کرنے والوں کو اب وہ طاقت حاصل نہیں جو انھیں ماضی میں حاصل تھی. امید ہے کہ اس بار ہمیں ایک مختلف وزیر عظم دیکھنے کو ملے گا۔

Back to top button