ملکی تاریخ میں تیسری مرتبہ ایوان بالا غیر فعال ہوگیا

52 کے قریب اراکین کے ریٹائر ہونے کے بعد ملکی تاریخ میں تیسری مرتبہ سینیٹ غیر فعال ہو گیا ہے جبکہ سینیٹ کمیٹیاں بھی تحلیل کر دی گئی ہیں، خالی نشستوں پر اراکین منتخب ہونے تک ایوان غیر فعال رہے گا جبکہ الیکشن کمیشن نے خالی نشستوں پر دو اپریل کو پولنگ کرانے کا اعلان کیا ہے۔پنجاب اور سندھ سے 12، 12 جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 11، 11، اسلام آباد سے تین اور فاٹا سے سینیٹ کی چار نشستیں خالی ہوئی ہیں، قبائلی علاقے فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے باعث فاٹا کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا، اس طرح تقریباً 50 برس کے بعد فاٹا کے لیے سینیٹ میں مختص نشستیں ختم ہوجائیں گی۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی بقیہ 48 نشستوں پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔سینیٹ میں چھ سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہونے والے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کے 13، پیپلز پارٹی کے 12، پی ٹی آئی کے آٹھ، بلوچستان عوامی پارٹی چھ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے دو، دو جب کہ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کا ایک ایک سینیٹر شامل ہے۔سینیٹ میں اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے دو سینیٹرز مشاہد حسین سید اور اسد جونیجو ریٹائر ہو جائیں گے۔سندھ سے ریٹائر ہونے والے 12 سینٹرز میں رضا ربانی، فروغ نسیم، مظفر حسین شاہ، امام دین شوقین، مولو بخش چانڈیو، سید محمد علی شاہ جاموٹ، وقار مہدی، خالدہ سکندر میندرو، رخسانہ زبیری، کیشو بائی، قرت العین مری اور انور لعل دین شامل ہیں۔پنجاب سے ریٹائر ہونے والے 12 سینٹرز میں قائد ایوان اسحاق ڈار اور قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ ڈاکٹر آصف کرمانی، رانا محمود الحسن، مصدق ملک، شاہین خالد بٹ، ولید اقبال، حافظ عبدالکریم، نزہت صادق، سیمی ایزدی اور کامران مائیکل شامل ہیں جب کہ رانا مقبول کی نشست ان کے انتقال کے باعث خالی ہو گئی تھی۔خیبر پختونخوا سے ریٹائر ہونے والے 11 سینیٹرز میں فیصل جاوید، مشتاق احمد، اعظم سواتی، طلحہ محمود، پیر صابر شاہ، بہرا مند خان تنگی، فدا محمد، دلاور خان، مہر تاج روغانی اور روبینہ خالد شامل ہیں۔ شوکت ترین کی نشست استعفے کے بعد پہلے ہی خالی ہو چکی تھی۔بلوچستان سے ریٹائر ہونے والے 11 سینیٹرز میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بطور رکن بلوچستان اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں جس کے بعد ان کی نشست خالی ہو چکی ہے۔ بلوچستان سے طاہر بزنجو، احمد خان، مولوی فیض محمد، کہدا بابر، محمد اکرم، شفیق ترین، نصیب اللہ بازئی، عابدہ عظیم اور ثنا جمالی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔فاٹا سے چار سینیٹرز ہدایت اللہ خان، ہلال الرحمان، شمیم آفریدی اور ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔ مرزا آفریدی کو صادق سنجرانی کی نشست خالی ہونے کے بعد قائم مقام چیئرمیں مقرر کیا گیا تھا۔1973 کے آئین کے تحت سینیٹ کے قیام سے آج تک یہ پہلا موقع ہے کہ سینیٹ کے ہر تین برس بعد ریٹائر ہونے والے اراکین کی نشستوں پر مدت ختم ہونے سے کچھ روز قبل انتخاب نہیں ہو پائے جس کے باعث پارلیمان کا یہ مستقل ایوان کچھ روز کے لیے تیسری بار غیر مؤثر ہو جائے گا۔پنجاب اور سندھ اسمبلی کے اراکین 12، 12 جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین 11، 11 سینیٹرز کا انتخاب متعلقہ اسمبلی ہال میں دو اپریل کو کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار دیگر انتخابات سے مشکل اور پیچیدہ ہے جس کے باعث بیشتر جماعتیں سینیٹ کے انتخابات کے طریقۂ کار کو مل کر آسان بنانے کی بھی تجویز دے چکی ہیں۔ سینیٹ کے انتخاب میں ہر رکن صوبائی اسمبلی کو سیٹوں کی گیٹیگری کے حساب سے ترجیحی ووٹ دینا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ہر صوبے میں جنرل کی سات نشستوں پر نئے سینیٹر منتخب ہوں گے۔ ان نشستوں پر امیدواروں میں سے ہر رکن اسمبلی پرارٹی کے طریقہ کار سے ووٹ دے گا۔ اس طرح دو خواتیں اور دو ٹیکنوکریٹ/ علماء کی نشستوں پر بھی پرارٹی ووٹ ہوگا جب کے سندھ اور پنجاب میں اقلیت کی ایک ایک نشست پر بھی ووٹنگ ہوگی، پولنگ مکمل ہونے کے بعد پہلی پرارٹی والے اراکین کامیاب ہوں گے اور اس کے بعد باقی پرارٹی کی گنتی ہوگی۔

Back to top button