نومنتخب وزیر خزانہ درپیش معاشی چیلنجز سے کیسے نمٹیں گے

ملک میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، آئی ایم ایف کے پروگرام میں شمولیت وہ ابتدائی چیلنجز ہیں جن کا سامنا نومنتخب وزیر خزانہ کو کرنا پڑے گا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے کو مقامی اور بین الاقوامی معاشی شعبے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ محمد اورنگزیب نے 30 اپریل 2018 کو بطور صدر اور سی ای او ایچ بی ایل بینک کو جوائن کیا اور یہ ذمہ داری وہ وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے تک انجام دیتے رہے۔معروف نجی بینگ ایچ بی ایل کے صدر بننے سے قبل محمد اورنگزیب ایشیا میں مقیم جے بی مورگن کے گلوبل کارپوریٹ بینک کے سی ای او تھے۔موجودہ وزیر خزانہ ایمسٹرڈیم اور سنگاپور میں مقیم اے بی این اے ایمرو اور آر بی ایس میں دیگر سینیئر مینجمنٹ رول ادا کرنے علاوہ 30 سال سے زیادہ بین الاقوامی بینکاری کا بھی بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد اورنگزیب وہ واحد پاکستانی ہیں جنہیں ڈبلیو ایس جے ڈو جونز گروپ کے زیر اہتمام عالمی سی ای او کونسل کی خصوصی رکنیت میں مدعو کیا گیا تھا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے نے وارٹن سکول یونیورسٹی آف پینسلوانیا امریکا سے بی ایس اور ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ محمد اورنگزیب کا بطور وزیر خزانہ کا انتخاب اُن کی قابلیت اور وسیع تجربے کی بنیاد پر ہی کیا گیا ہے۔پاکستان کو اپنی مالی ضرویات پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی مدد درکار ہوتی ہے اور ان اداروں میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف کا نام ہمیشہ سر فہرست ہے۔پاکستان کا موجودہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام اپریل 2024 میں اختتام پزیر ہو رہا ہے۔ موجودہ پروگرام کی تکمیل اور بیرونی فنانسنگ کے لیے نئے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت ضروری سمجھی جا رہی ہے۔پاکستان میں گذشتہ ڈیڑھ سے دو سال کے عرصہ میں ریکارڈ مہنگائی دیکھنے کو ملی ہے۔ ملک میں اس وقت سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 33 فیصد کے قریب ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ کے لیے مہنگائی کے سونامی کو بریک لگانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔معاشی جریدے بلوم برگ نے محمد اورنگزیب کی وزیر خزانہ تعیناتی کو خوش آئندہ قرار دیا ہے۔محمد اورنگزیب کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی کو عالمی سطح سراہا جا رہا ہے۔محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موجودہ مالی سال 2024-25 بھی کھٹن ہو گا، لیکن ملک کو اس مشکل سے باہر نکالنے کے لیے کام کریں گے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان موجودہ قرض پروگرام کے آخری اقتصادی جائزے کے لیے آئی ایم ایف مشن 14 سے 18 مارچ تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔ آئی ایم ایف مشن وزارت خزانہ، وزارت توانائی، ایف بی آر حکام سے مذاکرات کرے گا، جبکہ ایف بی آر، سٹیٹ بنک حکام، پلاننگ کمیشن، پٹرولیم ڈویژن سے بھی بات چیت مذاکرات کا حصہ ہوگی۔ وزارت خزانہ حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف مشن اور معاشی ٹیم کے درمیان مذاکرات کا شیڈول تیار کر لیا گیا ہے جبکہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے بات چیت کا آغاز بھی ہوگا۔معاشی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ وزیر خزانہ کا سب سے بڑا چیلنج حکومتی اخراجات کم کر کے خود کفیل بننے کی رہ پر گامزن ہونا ہے۔سابق وزیر خزانہ اور ماہر معاشی امور ڈاکٹر سلمان شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پاکستان کو اس سال بھی 20 سے 25 ارب ڈالرز کی بیرونی ادائیگیاں کرنا ہیں جو موجودہ حکومت کے لیے آسان نہ ہوگا۔ بیرونی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کو عالمی اداروں کی مدد درکار ہوگی۔ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق آئندہ بجٹ پر آئی ایم ایف سے مشاورت بھی وزیر خزانہ کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف چاہے گا کہ ٹیکس وصولیوں کو بڑھایا جائے۔سینئر معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’پاکستان کی ہر حکومت ایک قرضہ لے کر دوسرا قرضہ اتارنے کے مشن پر کاربند رہتی ہے۔ اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے تو یہ روش ترک کرنا ہوگی۔قیصر بنگالی کے مطابق حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے۔ 20 غیر ضروری وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا اور اپنے دفاعی اخراجات بھی کم سے کم سطح پر لانا ہوں گے۔

Back to top button