کیا پی ٹی آئی اب بھی احتجاج کی طاقت رکھتی ہے؟

الیکشن 2024 میں شکست کے بعد پاکستان تحریک انصاف ابھی تک احتجاج کے موڈ میں نظر آ رہی ہے، پارٹی کا موقف ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے جس کی بحالی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی میں 2013 کی طرح عوامی طاقت جمع کرنے کا زور ہے۔کچھ سیاسی مبصر دعویٰ کرتے ہیں کہ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف جی ایچ کیو کا سپورٹ کھو چکی ہے، وہ ماضی کی طرح لوگوں کو سڑکوں پہ نہیں نکال سکتی۔پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے ہر علاقے میں احتجاج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور ہزارہ ڈویژن پی ٹی آئی وومن ونگ کی صدر تہمینہ فہیم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے خوف کے بت توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ناقدین یہ کہتے رہتے ہیں کہ احتجاجی طاقت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو ووٹ نہیں پڑیں گے۔ عوام نے بڑی تعداد میں خان کو ووٹ دے کر ان کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔تہمینہ فہیم کے مطابق گرفتاریوں اور مقدموں سے تحریک انصاف کے لوگوں کو ڈرایا نہیں جا سکتا، پارٹی نہ صرف خیبر پختون خوا میں بلکہ ملک کے طول و عرض پر ہر جگہ بڑے مظاہرے کرے گی اور اس بات کو برداشت نہیں کرے گی کہ اس کے مینڈیٹ کو چوری کر لیا جائے۔لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قومی سیاسی افق پر وہ واحد جماعت ہے جو ابھی بھی لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میرے خیال میں تحریک انصاف میں یہ صلاحیت اب بھی موجود ہے اور کم از کم وہ خیبر پختون خوا میں تو بہت بڑے مظاہرے کر سکتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی لیکن کچھ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسے اب بھی یہ حمایت حاصل ہے۔ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ رہنے والی سابق رکن قومی اسمبلی مسرت زیب احمد کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی عمران کو پرہیزگار اور متقی بنا کر پیش کیا تھا اور اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی عمران کو حمایت حاصل ہے۔ تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے لیے احتجاجی تحریک چلانا بہت مشکل ہے۔ پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر فیض اللہ جان کا کہنا ہے کہ کئی ایسے عوامل ہیں جس کی بنیاد پر ایسی کسی تحریک کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزے نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر احتجاجی تحریک کی صورت میں شدید رد عمل دے گی تاہم ایسی کوئی بھی سختی تحریک انصاف کے فائدے میں جائے گی۔ ‘‘ توصیف احمد خان کے مطابق اگر حکومت کریک ڈاؤن کو شدید کرے گی تو اس سے خود حکومت کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا۔مریم اکرام ن لیگ کو پیاری ہوگئیں دوسری طرف حکومت بھی تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑنے میں مصروف ہے۔ اس نے نہ صرف کے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی کو توڑا ہے بلکہ ماضی میں تحریک انصاف کے حوالے سے ٹک ٹاک پہ ویڈیو بنانے والی مریم اکرام کو بھی پاکستان مسلم لیگ نون نے گود لے لیا ہے اور انہیں رکن قومی اسمبلی بھی بنوادیا ہے۔مریم اکرام پر الزام تھا کہ وہ نو مئی کے احتجاج میں شریک تھیں۔ تاہم نون لیگ کی طرف سے ان کو گود لینے کے بعد ان کے وہ گناہ دھلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔وہ مریم اکرام جو کل تک عمران خان کے گن گاتی تھیں اب وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں۔

Back to top button