بالی ووڈ نے الیکشن سے قبل مودی کو ہیرو کیوں بنا دیا؟



بھارت میں انتخابات کی آمد کے موقع پر سیاسی سرگرمیاں خوب عروج پر ہیں، انتخابی مہم زوروں پر جاری ہے، جبکہ بالی ووڈ نے بھی اس میں انٹری کرتے ہوئے مودی کو الیکشن سے پہلے ہی ہیرو بنا دیا ہے، وزیراعظم نریندر مودی کی حمکران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری بار انتخابات میں کامیابی کے لیے پر امید ہے۔ ملک بھر میں بی جے پی کی جیت کی ہوا چل رہی ہے۔برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق، بالی ووڈ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں درجن کے قریب فلمیں ریلیز کی گئی ہیں یا آئندہ چند روز یا ہفتوں میں سینیماؤں میں پیش کر دی جائیں گی، انڈسٹری میں کچھ لوگوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یہ فلمیں ہندوستان کو مذہبی خطوط پر مزید تقسیم کرنے کے لیے استعمال ہوں گی۔بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی بطور پروڈیوسر ایک فلم میں مسلمانوں کی ایسی تصویر کشی کی گئی کہ اس کی ریلیز کو روکنے کے لیے اسے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے علاوہ 2019 کے انتخابات سے قبل مودی کی زندگی پر بنائی گئی ایک فلم میں انہیں بطور وزیراعظم اتنا مثبت دکھایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل اس کی ریلیز کو روک دیا تھا۔چنئی کی کریا یونیورسٹی میں ادب کے پروفیسر سیاندیب چودھری نے ہندوستانی سنیما پر لکھا ہے۔ انہوں نے ان فلموں کو ’بے ڈھنگا پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے جو حکومت کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر نقائص پیدا کر رہی ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بائیں بازو کی سوچ اور تحریک کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے بارے میں آئندہ ماہ ایک فلم ’جہانگیر نیشنل یونیورسٹی‘ ریلیز کی جائے گی جس میں اسے ایک ایسی یونیورسٹی کے طور پر دکھایا گیا ہے جہاں بائیں بازو کے لوگ ’لو جہاد‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔پروفیسر سیاندیب چودھری کا کہنا ہے کہ اس طرح کی فلموں کی نمائش سے بالی ووڈ میں ایک بڑے رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بی جے پی کے بیانیے کا پرچار کرنے والی فلمیں تواتر سے ریلیز کی جا رہی ہیں اور نیٹ فلکس اور ایمیزون جیسے اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر بھی دستاب ہیں۔پروفیسر چودھری کا مزید کہنا تھا کہ 2022 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کشمیر فائلز‘ ایسی فلموں کا نقطہ آغاز تھا، اس فلم میں کشمیر کی غلط تاریخ بیان کی گئی اور مسلمانوں کی منفی تصویر دکھائی گئی تھی مگر اس کے باوجود یہ ایک بلاک بسٹر فلم ثابت ہوئی۔اس سلسلے کی حالیہ فلم ’رضا کار: سائلنٹ جینوسائیڈ آف حیدرآباد‘ ہے جس میں ایک مسلم رہنما کی تصویر کشی کی گئی۔ مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی اس فلم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا لیکن پروڈیوسر نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ فلم ’100 فیصد درست‘ ہے اور یہ کمرشل فلم نہیں ہے۔بالی ووڈ کے سکرین رائٹر راجہ سین کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ میں بہت سے فلمساز اسی رجحان کو اپنا رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوامی بحث کو جنم دینے والے موضوعات پر فلمیں بنا کر وہ باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

Back to top button