سندھ پولیس کچے کے ڈاکوئوں کو قابو کرنے میں ناکام کیوں ہے؟



سندھ اور پنجاب کے سرحدوں علاقوں میں کئی دہائیوں سے ڈاکوئوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے جوکہ آئے روز مجرمانہ کارروائیوں میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، ان ڈاکوئوں کے پاس غیرملکی اسلحہ بھی ہے جس کی وجہ سے یہ پولیس کی گرفت سے بچنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔دریائے سندھ کے کنارے آباد وادی مہران میں ان دنوں ایک بار پھر بدامنی کے بادل گہرے ہو رہے ہیں کیونکہ کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باعث آئے روز بے گناہ شہری جان سے جا رہے ہیں، ڈاکوؤں کے اثرو رسوخ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کچے کے علاقے میں اب علم کی شمع روشن کرنے والوں کے خلاف بھی محاذ کھڑا کر رکھا ہے۔ان واقعات کے بعد ضلع کشمور میں اساتذہ کی جانب سے کندھ کوٹ پریس کلب کے باہر احتجاج بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’اللہ رکھیو نندوانی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اقدامات تیز کیے جائیں۔ مظاہرین نے خطاب میں کہا کہ ’ایک ہفتہ قبل اپنی حفاظت کے لیے بائیک پر استاد جب ایک ہاتھ میں بندوق تھامے اپنے بیٹے کے ساتھ جا رہے تھے جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تو ان کا نام ڈاکوؤں کی ہٹ لسٹ پر موجود تھا۔حالیہ کچھ عرصے میں کندھ کوٹ میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور لوگ علاقے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ’کچے کے ڈاکو اب شہروں میں آ کر وارداتیں کرنے لگے ہیں۔ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما صدرالدین مرہٹہ نے کہا کہ ’معاشرے کو علم کی روشنی سے منور کرنے والے اساتذہ بھی اب محفوظ نہیں رہے۔ ضلع بھر سے سردست 54 افراد اغوا ہیں۔کندھ کوٹ پولیس نے کہا ہے کہ ڈاکوؤں نے مزاحمت پر مقامی ہائی سکول حامد بھلکانی کے ٹیچر عبدالرحیم باجکانی اور ان کے والد ریٹائرڈ ٹیچر علی گوہر باجکانی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان پر فائرنگ کی جس سے دونوں شدید زخمی ہو گئے۔سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کے مختلف گروہ سرگرم ہیں۔سینئر صحافی طارق ابوالحسن ان علاقوں میں جا کر کئی بار رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کے متعدد گروہ سرگرم ہیں۔کچے کا علاقہ پاکستان کے تین بڑے صوبوں کا سرحدی علاقہ ہے جو صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور، سندھ کے ضلع کشمور اور بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی پر مشتمل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کچے کے علاقے میں تقریباً آٹھ بڑے جبکہ 11 چھوٹے گینگ اور کچھ کالعدم بلوچ تنظیموں کے لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔جامعہ کراچی شعبہ کرمنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کچے کے علاقے شروع سے ہی جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانے نہیں تھے لیکن چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو جب بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہونے لگی تو انہوں نے جرائم پیشہ گروہوں کی صورت اختیار کر لی، سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے اوباڑو میں سرگرم عمل سماجی کارکن روبینہ شر کے مطابق پاکستان کے تین بڑے صوبوں کے سنگم پر واقع اس علاقے کے دامن میں تینوں ہی صوبوں کی روایات نظر آتی ہے۔ ان علاقوں میں قبائلی نظام رائج ہے۔سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے متصل کچے کے ان علاقوں میں کئی بار پولیس، رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کر چکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل سکیورٹی اداروں کی جانب سے پنجاب کے کچے کے علاقے میں بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔اس آپریشن کے بعد کچے کے علاقوں میں چھوٹے بڑے کریک ڈاؤن بھی کیے گئے اور حالات کو کنڑول کر لیا گیا تھا۔تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد رہائی پانے والے حبیب الرحمنٰ (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے 21 دن اغوا کاروں کے پاس گزارے ہیں۔ یہ وقت ان کی زندگی کا بدترین وقت تھا۔حبیب الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ ’اغوا کاروں میں موجود کچھ لوگوں کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ گفتگو میں انگریزی کے الفاظ بھی بول رہے تھے اور ان کا لہجہ بھی دوسروں سے مختلف تھا۔اگست 2023 سے مارچ 2024 تک اغوا برائے تاوان کے 78 کیسز سامنے آئے ہیں، ان میں سے 49 افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور 29 فی الحال بازیاب نہیں کروائے جا سکے۔اغوا کی 29 وارداتوں میں سے چھ کا تعلق گھوٹکی، نو کا شکارپور اور 14 کا کشمور سے ہے۔سابق نگراں وزیراعلٰی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی صدارت میں ستمبر 2023 میں کابینہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس کے بعد کچھ روز تک انتظامیہ کچے کے علاقے میں حرکت میں نظر آئی لیکن کچھ ہی عرصے میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور کچے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن تعطل کا شکار ہو گیا۔ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں صورتحال اب اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ پولیس کی جانب سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے بس اڈوں اور ہائی ویز کی چیک پوسٹوں پر لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔

Back to top button