اسرائیل کے ایران پر جوابی حملے کے بعد بڑی جنگ چھڑنے کا امکان

شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر ڈرون حملہ کرنے کے چند دن بعد اسرائیل نے تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران کے اصفہانی ایئرپورٹ پر میزائل داغ دئیے۔اس حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھاوا ملنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ  ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے دوٹوک الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران کو دوبارہ نقصان پہنچایا تو فوری، سخت اور وسیع پیمانے پر سنگین ردعمل ہوگا اور اس کے لیے وہ مزید 12 دن انتظار نہیں کریں گے۔ تجزیہ کار اور مبصرین اسرائیل کی جانب سے ایرانی ائیرپورٹ پر حملے کے بعد غزہ جنگ خطے میں پھیلنے کے خطرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

تاہم ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ سمیت مختلف ممالک کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران پر میزائل حملہ کیوں کیا اوراسرائیل نے جوابی کارروائی کیلئے ایران کے شہر اصفہان ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

مبصرین کے مطابق ایران کا شہر اصفہان، اسٹریٹجک طور پر ایران کا ایک اہم شہر سمجھا جاتا ہے اور فوجی تحقیق اور ترقیاتی مقامات کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈوں سمیت متعدد اہم تنصیبات بھی اس شہر میں واقع ہیں جبکہ اصفہان کا قریبی شہر نطنز ایران کے جوہری افزودگی کے مراکز میں سے ایک ہے۔اصفہان ایرانی کا تاریخی شہر اور ثقافتی گڑھ ہے اور سلجوق دور میں ایران کا دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں متعدد تاریخی آثار موجود ہیں۔ اصفہان کے بارے میں مثل مشہور ہے، ’اصفہان نصف جہان،‘ یعنی اصفہان کی اہمیت آدھی دنیا کے برابر ہے۔

اسرائیل کے ایرانی شہر اصفہان پر حملے بارے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اصفہان میں ایران کے آرمی ریڈار نظام کو نشانہ بنایا ہے، لیکن اس حملے کی نوعیت بڑی حد تک علامتی ہے اور اسرائیل نے دراصل ایران کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ’ریڈار سائٹ پر حملے سے فوجی طاقت اندھی ہو جاتی ہے اور انہیں کارروائیاں کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایران میں ہوائی اڈے سویلین اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اصفہان میں ایئربیس اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ اکٹھے ہیں۔ یہی ایران کے ایف 14 لڑاکا طیاروں کا مرکز بھی ہے جبکہ اصفہان کے آس پاس ایٹمی تنصیبات بھی موجود ہیں۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ’اصفہان کے شہر کا چناو سیاسی، نفسیاتی اور تزویراتی اعتبار سے اس لیے اہم ہے کہ یہ ایک پیغام ہے ایرانی قوم کو کہ اگر ہم چاہیں تو ایران کی حساس ترین تنصیبات پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان پر حملہ نہیں کیا احتیاط برتی ہے۔ ہم نے کسی ایٹمی یا سویلین کو اس لیے نشانہ نہیں بنایا کہ ہمیں احساس ہے کہ آپ کے اوپر سیاسی اور نفسیاتی دباؤ پڑے گا۔‘

خیال رہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد وائٹ ہاؤس نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف کسی جوابی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیکن اسرائیل نے اس کی پروا نہیں کی۔ اس حملے کے جو سفارت کاری ہوئی اس میں کوشش کی گئی کہ اسرائیل کو باز رکھا جائے، لیکن اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ کو کو بتا دیا تھا کہ اس نے حملہ کرنا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار محمد علیکے مطابق اسرائیل نے ایران پر جوابی حملہ اس لیے کیا کیونکہ ’ایران کا حملہ ان کے وقار اور عزتِ نفس پر ایک بہت بڑا طمانچہ تھا۔ اس حملے میں کوئی فزیکل نقصان تو نہیں ہوا تھا لیکن نفسیاتی نقصان ضرور ہو۔ڈاکٹر محمد علی کے مطابق تاہم اب نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل کو ایران پر حملے سے قدامت پرست حلقوں کی جانب سے تقویت ملے گی، چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو۔‘انہوں نے کہا کہ ’امریکہ نے اسرائیل کو بتا دیا تھا کہ ایران کو بہت بڑا نقصان نہیں ہونا چاہیے نہ فوجی اور نہ ہی سویلین نقصان زیادہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو عوامی اور نفسیاتی اور سفارتی دباؤ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کی مجبوری بن جائے گی کہ وہ جواب دے۔ امریکی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ میزائل اٹیک ہوا ہے لیکن ایرانی ذرائع اسے ناکام ڈرون اٹیک کہہ کر اسے معمولی قرار دے رہے ہیں۔‘ ایرانی میڈیا کا اپنے عوام کے سامنے اسرائیلی حملے کا تمسخر اڑانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ معاملے کو سلجھانے کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ اور وہ عوام کی رائے کو اس انداز میں ہموار نہیں کرنا چاہتے کہ معاملہ آگے بڑھے۔‘ جس سے اب لگتا ہے کہ معاملہ مزید کشیدگی کی طرف نہیں جائے گا۔

Back to top button