پاکستانی معیشت IMF ہی چلائے گا یا حکومت بھی کچھ کرے گی؟

سینئر صحافی عمار مسعود کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ، وقت کے اسی ننھے سے ثانیے سے گزر رہے ہیں جس کے بعد دھماکہ ہونا ہے، تباہی ہونی ہے اور جس کے بعد کسی کو،  کسی کا ہوش نہیں رہنا۔ پھر گھمسان کا رن پڑنا ہے، پھر تخت و تاج ہوا میں اچھالے جائیں گے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کا مزید کہنا ہے کہ ایک ماہ سے کم عرصے میں بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے سر پر لاٹھیاں برسا رہا ہے۔ کبھی سیاسی حالات کو بہانہ بناتا ہے، کبھی معاشی پالیسیوں کو غلط بتاتا ہے، کبھی بجلی کے بل بڑھانے کی فرمائش کرتا ہے، کبھی گیس کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے، کبھی ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدنی سے غیر مطمئن دکھائی دیتا ہے، کبھی معاہدے کے دودھ میں مینگنیاں ڈال دیتا ہے۔ بھکاری کشکول لیے کھڑے رہتے ہیں مگر دان دینے سے پہلے عزت و ناموس کا دلیہ ہو جاتا ہے۔

عمار مسعود کے مطابق توقع یہی ہے کہ آئی ایم ایف اس دفعہ بھی نئے ٹیکسز نافذ کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اور حکومت میں انکار کی تاب نہیں کیوں کہ ہم ایک ایسے چنگل میں پھنس چکے ہیں جہاں ہمیں قرضے پر جمع سود ادا کرنے کےلیے بھی قرضہ درکار ہے۔ اصل زر کی واپسی کی باری جانے کب آئے گی لیکن سود کی واپسی کے لیے ہم  دنیا کے سامنے جھولی پھیلائے بیٹھے ہیں۔بجٹ پیش ہو گا تو قیمتیں بڑھیں گی، مصیبت زدگان پر ایک اور مصیبت آ گرے گی۔کیونکہ اب لوگوں میں مہنگائی کی مزید تاب ہے نہ غربت برداشت کرنے کی مزید سکت ہے۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ آخری حد تک بھر چکا ہے، اب مزید ان کا امتحان نہیں لیا جا سکتا۔

رؤف حسن پرحملہ کیوں کیاگیا؟شفاف تحقیقات ہونی چاہیے

عمار مسعود کے بقول چند ہی دن پہلے کی بات ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ کسی نے اسے ملک سے غداری کہا، کسی نے ریاست سے بغاوت گردانا مگر جو کچھ وہاں ہوا وہ نہ بغاوت تھی نہ غداری۔ وہ بھوک تھی، مفلسی، ناداری تھی۔ جس نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ وہ آٹے کی ایک بوری تھی جس نے لوگوں کو شہر جلانے پر مجبور کر دیا۔ وہ بجلی کے بل تھے جنہوں نے لوگوں کی زندگی اندھیر کر دی تھی۔لیکن یہ صرف بے بسی نہیں تھی۔ یہ غصہ بھی تھا۔ یہ طیش بھی تھا۔ یہ انتقام بھی تھا۔ یہ اشتعال بھی تھا۔ یہ احتجاج بھی تھا۔ اس نظام کے خلاف جو دوبئی لیکس میں نام آنے والوں کو تو برسر اقتدار لے آتا ہے مگر ان کے لیے نعرے لگانے والوں کو، ان کے لیے جلسے بھرنے والوں کو ایک ایک پائی کے لیے رسوا کرتا ہے۔ جب لوگ اتنا سنگین مذاق اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ دیکھتے ہیں تو پھر وہ کسی قانون، ضابطے اور اصول کو نہیں مانتے۔ یاد  رکھیے  بھوکے پیٹ کا اپنا آئین ہوتا ہے۔

عمار مسعود کے مطابق اب حالات ایسے ہیں کہ جیسے سب کسی حادثے، دھماکے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے  کسی ٹائم بم کی پن نکال دی گئی ہے اور سماعتوں میں صرف ٹک ٹک ٹک کی آواز آ رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کے بعد دھماکہ ہونا ہے۔ اس کے بعد تباہی آنی ہے۔ اس کے بعد جو ہونا ہے وہ بہت برا ہونا ہے۔

عمار مسعود کے مطابق شہباز شریف بہت خوش نیت ہوں گے مگر اب حالات ان کے نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے قبضے میں ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم اپنی بدتر پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک گروی رکھ چکے ہیں۔ اب اس کا حل کوئی وقتی مرہم نہیں ہے۔ اب جلدی سے معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اب عارضی طریقے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ لوگوں کو سنجیدگی سے بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کا کرنا کیا ہے؟ اس میں خلق خدا کی آواز سننی ہے یا پھر ٹائم بم کی پن نکالنے کے بعد کی ٹک ٹک ٹک کی۔ یہ فیصلہ اب مقتدر حلقوں کو کرنا ہے۔

Back to top button