ججز اور جرنیلوں کی لڑائی میں حکومت کس کا ساتھ دے گی؟

اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ جہاں کئی سیاسی رہنماؤں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی شکایات پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں پریس کانفرنس کیں وہیں ججز کی دہری شہریت کے معاملے پر ایک قانون بھی ایوان میں پیش کر دیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے تین اہم ستون عدلیہ، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس تناؤ میں بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پارلیمان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں اُس وقت بڑھیں جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثرانداز ہونے اور مبینہ طور پر عدالتی کام میں مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار کا بھی الزامات پر مبنی خط سامنے آیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایوانِ بالا میں حکومتی ارکان کی تقاریر کے بعد بظاہر ایسا اشارہ ملتا ہے کہ حکومت، عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کی صورتِ حال میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے فریق بن رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ججز اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی میں کس کا ساتھ دینا اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کی اہم جماعتیں ایک ساتھ ہیں کیوں کہ اکثر سیاسی جماعتوں کو ماضی میں عدلیہ سے شکایتں رہی ہیں۔۔

تاہم عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی اس محاذ آرائی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے؟

پارلیمان کو 1985 سے مسلسل رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی نصرت جاوید کے خیال میں توہین عدالت کے نوٹس کے بعد حکومتی اتحاد سینیٹر فیصل واوڈا کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ فیصل واوڈا فرد واحد نہیں ان کا کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق ہے۔” دوسری جانب "حکومت عدلیہ سے فاصلہ اختیار کرتے نظر آ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی عدالتوں سے شکوے ہیں اور بعض حکومتی رہنما ججز کے خطوط والے معاملے کو کسی اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔مبصرین کے خیال میں ججز کا ایک ساتھ خط لکھنے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ "ماضی میں عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی اب پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد پورے کرنے کے لیے ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ممکن ہے کہ فیصل واوڈا نے خود ہی پریس کانفرنس کر دی ہو مگر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے کسی کے کہنے پر پریس کانفرنس کی۔ میرے سوال پر وزیر قانون نے یہ سینیٹ میں وضاحت کی کے سینیٹ کا اجلاس پارلیمانی کلینڈر کے تحت بلایا گیا ہے مگر بظاہر لگتا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس توہین عدالت کے نوٹسز پر بات کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس حوالے سے میچ فکس تھا۔ ایوان بالا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔جیال رہے کہ عدلیہ مخالف پریس کانفرنسز کرنے پر فیصل واوڈا اور مصطفٰی کمال کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کئے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے توہینِ عدالت کے نوٹس ملنے کے بعد فوری طور پر سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا۔ جہاں اس معاملے پر دھواں دھار تقاریر بھی ہوئیں۔

دوسری جانب سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ ” بظاہر حکومت اور عدلیہ کے درمیان کلیش نظر آرہا ہے۔ بعض حکومتی عہدیدار یہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمینٹ کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے۔”انہوں نے کہا کہ ماضی کی تاریخ بھی ایسے معاملات کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ آئین میں اداروں کی حدود طے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔سینیٹر ضمیر گھمرو کے مطابق "پارلیمنٹ کو توہینِ عدالت کے متعلق نیا قانون بنانا چاہیے۔ یہ پارلیمینٹ کا اختیار ہے۔ توہین عدالت کے متعلق صوبائی سطح پر بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔”

دوسری جانب صحافی نصرت جاوید کے مطابق نور عالم کا دہری شہرت رکھنے والے افراد پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں تعیناتی پر پابندی بارے بل موجودہ صورتِ حال میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ توہین عدالت آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا بل حکومت چاہے تو منظور کروا سکتی ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ کے خیال میں بھی توہین عدالت آرڈیننس کی منسوخی کے بل کو شاید حکومت منظور کروا لے گی۔ تاہم مذکورہ آرڈیننس کی منسوخی کا بل منظور ہونے کے بعد یہ معاملہ عدالت تک پہنچ سکتا ہے اور تلخیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

Back to top button