کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کو حاضر سروس جرنیلوں کی طلبی کا اختیار ہے؟

اسلام آبادہائیکورٹ کی جانب سے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سیکٹر کمانڈرز اور ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیوروو کی ذاتی حیثیت میں طلبی اور آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کی زیر حراست افراد کی فہرستیں طلب کئے جانے کے بعد آنے والے دنوں میں دونوں ریاستی اداروں یعنی فوج اور عدلیہ میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا ان خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا ہے کہ لاپتہ شاعر احمد فرہاد کے کیس کی پچھلی سماعت میں ٹمپریچر کافی زیادہ نظر آرہا تھا،تاہم حالیہ پیشرفت کے بعد اس معاملہ پر لگتا ہے آنے والے دنوں میں محاذ آرائی مزید بڑھے گی۔

حامد میر کے مطابق لاپتہ شاعر احمد فرہاد کے کیس کی گزشتہ سماعت میں بھی ماحول کافی کشیدہ تھاتاہم اٹارنی جنرل منصور اعوان کے مثبت کردار کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی کا بھی لب و لہجہ تبدیل ہوا، عدالت نے 24 مئی جمعہ کو گیارہ بجے تک احمد فرہاد کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن توقعات کے خلاف عدالتی ریمارکس پر وزیرقانون نے بہت سخت تقریر کردی، جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ ریاست کے مختلف اداروں کی پالیسی مختلف ہے۔ حامد میر کے مطابق ہمارا خیال تھا کہ احمد فرہاد کو پیش نہ کرنے پر جسٹس محسن اختر کیانی غصہ میں آجائیں گے مگر وہ غصہ میں نہیں آئے، جج صاحب نے کہا کہ اگر آج آپ بندہ پیش کردیتے تو معاملہ یہیں پر ختم ہوجاتا، لیکن اب یہ معاملہ احمد فرہاد کی بازیابی کا نہیں پوری پاکستانی قوم کی بازیابی کا ہے، اب ہم اس کیس میں ایسا فیصلہ لکھیں گے جس سے پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کا معاملہ ایک ہی فیصلے کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اس معاملہ پر لگتا ہے آنے والے دنوں میں محاذ آرائی مزید بڑھے گی، کیونکہ اگر جسٹس محسن اختر کیانی کے تحریری احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوگی۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز ہوں یا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب، سارے ججز اس وقت یہ غصے میں نظر آتے ہیں جبکہ آئین ججز کو ضبط رکھنے کا پابند کرتا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان بھی آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز پر الزام لگاتے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب وکلا کے ذریعے وہی کمپین عدلیہ میں چلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ ایجنسیوں کے سیکٹرز کمانڈرز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رہی ہے حالانکہ آئین کا آرٹیکل 199 (3) بیان کرتا ہے کہ کوئی ہائی کورٹ آرمڈ فورسز کے کسی افسر کو طلب نہیں کر سکتی جبکہ سینئر وکیل جہانگیر جدون خان نے کہا فوج کو تسلیم کرنا ہو گا کہ انہوں نے ماضی میں کئی بار اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور آئین کو توڑ کر کبھی مارشل لاء لگایا تو کبھی ہائبرڈ رجیم قائم کی۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ آئین اور قانون کے مطابق اگر کوئی شخص ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہے اور ایجنسیاں اسے پکڑتی ہیں یا پولیس کی مدد کرتی ہیں تو اسے عدالت میں پیش کریں اور ثبوت دیں۔ فوج کو بھی عدالتوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔

دوسری طرف سینئر صحافی رضا رومی کے مطابق ہمارے ملک میں عدلیہ ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیکنڈ ان کمانڈ رہی ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک بھی سراب ثابت ہوئی کیونکہ اس کی ڈوریاں بھی جنرل کیانی ہلا رہے تھے۔ اس وقت عدلیہ اور فوج کے مابین جو تصادم کی فضا ہے اس سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر بھی پھڈا ہے جبکہ میرے ذرائع کے مطابق فوج کے اندر کوئی تلاطم نہیں ہے بلکہ فوج بہت پرسکون ہے۔

Back to top button