فوج اور عمران کے مابین صلح کی کوشش کیسے ناکام ہوئی

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ 2023 کے عام انتخابات سے پہلے ایک معروف مذہبی عالم نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین معاملات بہتر بنانے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔ انصار عباسی نے اس مذہبی سکالر کا نام تو نہیں بتایا لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شخصیت مولانا طارق جمیل ہو سکتے ہیں جن کی عمران خان کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی اچھی سلام دعا تھی۔ تاہم جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد سے پی ٹی ائی اور فوجی قیادت کے مابین رابطے تقریبا ختم ہو چکے ہیں۔

سینئیر صحافی کے مطابق صلح کی یہ کوشش 8 فروری کے انتخابات سے پہلے کی گئی تھی لیکن یہ ناکام رہی جس کی بنیادی وجہ لچک کی کمی تھی۔ اپریل 2022 میں ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکال باہر کیے جانے کے بعد فوج، اس کے اعلیٰ کمانڈروں اور حتیٰ کہ موجودہ اور سابقہ آرمی چیف کیخلاف عمران خان جو الزامات عائد کر رہے ہیں ان کے تناظر میں اب جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کیلئے ساکھ کے بحران کا ایک سنگین چیلنج درپیش ہے۔ سوال یہ بھی یے اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ عمران خان ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت لوگوں پر بغیر ثبوت سنگین نوعیت کے الزامات عائد نہیں کریں گے۔

گزشتہ دو سال کے دوران عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ جرنیلوں پر تنقید کی دو جہتی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور ساتھ ہی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اُن کے مخالفین کی حکومت ہٹا کر اُن کیلئے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کریں۔ انصار عباسی کے مطابق 9 مئی کے حملوں اور 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی، عمران خان موجودہ آرمی چیف پر براہ راست تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید کے ساتھ ہی وہ جنرل عاصم منیر اور ان کے ماتحت اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

دوسری جانب فوج کے ترجمان نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو واضح طور پر کہا کہ فوج پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔ ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کا امکان ہے جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ اگر کوئی سیاسی سوچ، رہنما یا گروہ اپنی ہی فوج پر تنقید کرتا ہے، فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے، قوم کے شہداء کی توہین کرتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے اور پروپیگنڈہ کرتا ہے تو ان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔

فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ایسے انتشار پسندوں کیلئے واپسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ پی ٹی آئی قوم کے سامنے دل سے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست اختیار کرے گی۔ بہرصورت ایسی بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونی چاہئے۔ فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔ انصار عباسی کے مطابق موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے تقرر کے بعد، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے پی ٹی آئی کے تمام روابط ختم ہو گئے۔  عمران خان اور تحریک انصاف ڈاکٹر عارف علوی کے دور میں ایوان صدر کا استعمال کرتے ہوئے اور عمران خان کے ہمدرد ریٹائرڈ جرنیلوں کے ذریعے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی مایوس کن کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔

آپسی لڑائی کا شکار جماعت پی ٹی آئی کے اندر کئی لوگ متفق ہیں کہ عمران خان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اور اعلیٰ فوجی جرنیلوں پر الزامات عائد کرنے کی پالیسی سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ اس صورتحال کے برعکس، ایسی پالیسی نے پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے خواہشمند عمران خان کیلئے مسائل بڑھا دیے ہیں لہذا ان کے اڈیالہ جیل سے باہر انے کے امکانات بھی معدوم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

Back to top button