حکومت بجلی چوروں کا بل عام آدمی سے کیوں وصول کرتی ہے

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت بجلی چوروں کو نشان عبرت بنانے کی بجائے لائن لاسز کے نام پر عام صارفین سے اربوں روپے کے اضافی بل وصول کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔ انکا کہنا یے کہ اگر بجلی چوری ہورہی ہے تو حکومت کا کام اسے روکنا ہے نہ کہ اسکی سزا عام ادمی کو دینا ہے۔ ہر ماہ اربوں روپے کی بجلی چوری کرنے والوں کی روک تھام کے لئے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا چاہئے نہ کہ ان شہریوں کو سزا دی جائے جو بروقت اپنے بھاری بھاری بل جمع کراتے ہیں ۔

اپنی تازہ تحریر میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ یہ عجیب ملک ہے جہاں بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک لوگ دس سے بیس گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ برداشت کررہے ہیں۔ بلنگ کا سسٹم عجیب ہے کہ جو بل ادا کرتا ہے اس کو بھی بل ادا نہ کرنے والے کے جرم کی سزا لوڈشیڈنگ کی صورت میں ملتی ہے اور یہ عجیب ملک ہے کہ وفاقی وزیر تک اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ظالمانہ نظام ہے لیکن پھر بھی جاری و ساری ہے۔

سلیم صافی کے مطابق یہ بات تو آپ نے کئی مسلم لیگی وزرا اور ترجمانوں کی زبانی سنی ہوگی کہ 2015ءسے قبل ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور سی پیک کے تحت فوری منصوبے لگا کر نوازشریف نے ملک میں بجلی سرپلس کردی ۔آج بھی وہ کہتے ہیں کہ بجلی سرپلس ہے لیکن عید کے دنوں میں جبکہ لوگ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی میں جھلس رہے تھے اس دن بھی حکومت کے پاس سرپلس بجلی موجود تھی تاہم اپنی پالیسی کے تحت اسے سپلائی نہیں کی جارہی تھی۔کہتے ہیں کہ جتنی زیادہ بجلی سپلائی کرتے ہیں اتنا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ سوال ہے کہ یہ معمہ کیا ہے کہ بجلی ضرورت سے زیادہ موجودہے لیکن پھر بھی بعض جگہوں پر بیس بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ؟

سلیم صافی بتاتے ہیں کہ دراصل پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام مختلف کمپنیوں مثلا پیسکو، ایسکو، جپکو، فیسکو، لیسکو، مپکع، قسکو، سپکو، حیکسو اور کے الیکٹرک کے سپرد ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر کمپنی کی حدود میں اربوں روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے ۔یہ چوری کہیں زیادہ کہیں کم ہے لیکن کراچی سے خیبر تک یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے ۔ کچھ جگہوں پر تو حکومتی رٹ کی کمزوری کی وجہ سے چوری ہورہی ہے لیکن کچھ جگہوں پر واپڈا والوں کی ملی بھگت بھی اس کی وجہ ہے ۔حکومت کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ چوری پیسکو کی حدود میں ہورہی ہے اس لئے لوڈشیڈنگ بھی وہاں زیادہ ہے ۔

پیسکو کے مطابق اس کے زیرانتظام 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں جن میں 156فیڈرز پر لاسز کم ہیں اسلئے وہاں صرف دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 135فیڈرز پر 20سے 30 فی صد لاسز ہیں اس لئے وہاں چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 96 فیڈرز ایسے ہیں جن پر لاسز 30سے 40فی صد ہیں اور وہاں7گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 143 فیڈرز پر 40سے 60 فی صد لائن لاسز ہیں اور وہاں پر 12گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔157فیڈرز پر لاسز 60سے 80فی صد ہیں جہاں پر 16گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ 159فیڈرز پر لاسز 80فی صد ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ اب جہاں پر بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے وہاں بجلی کے کنکشن کا کیا فائدہ ؟ ان فیڈرز کے تحت آنے والے جو لوگ بروقت بل جمع کرتے ہیں، وہ بھی بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی زد میں ہیں تو کیا یہ ان کے ساتھ ظلم نہیں؟

سلیم صافی کہتے ہیں کہ جو لوگ کنڈے لگاتے ہیں وہ بجلی بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ ہر ڈیسکو میں جتنی دیر زیادہ بجلی سپلائی ہوتی ہے وہاں حکومت کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اس لئے یہ لوڈشیڈنگ اس وجہ سے نہیں ہورہی کہ بجلی کی کمی ہے بلکہ اس لئے ہورہی ہے کہ حکومت کے نقصان کو کم کیا جائے ۔ چنانچہ اب حکومت نے بجلی کی سپلائی کی ان کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر کراچی کے تجربے کو دیکھا جائے تو شاید نجکاری بھی اس کا مناسب حل نہیں ہے کیونکہ لوگوں سے میٹرز لگوانے اور بجلی چوری روکنے کے لئے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے اور پولیس صوبائی حکومتوں کے زیرانتظام ہے ۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ نجکاری کی بجائے ان کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کیا جائے ۔

Back to top button