پروفیسر وارث میر کا بیش قیمت فکری اثاثہ

تحریر:اصغر ندیم سید

کسی بھی ادیب، شاعر اور دانشور کی فکری قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے اسے لکھنے کے لیے کون سا زمانہ نصیب ہوا کیونکہ وہی زمانہ طے کرتا ہے کہ اس دور میں چھپے اضطراب اور سوالات کو کس مفکر نے کس طرح سمجھا اور کیسے ان کا سامنا کیا۔ زمانے چاہے کتنے ہی ابتر اور ظلمت آشنا کیوں نہ ہوں، وہ ہمیں حریت فکر کے ان راہیوں سے ملا ہی دیتے ہیں جو ہمارے سماج کے دشمنوں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک استاد، دانشور اور فکری رہنما پروفیسر وارث میر بھی ہیں جنہیں لکھنے کے لیے ساٹھ، ستر اور اسی کی مشکل ترین دہائیوں کا زمانہ نصیب ہوا۔ یہ زمانہ پاکستان کے مستقبل کی بنیادوں کا تعین کرنے کے زمانہ تھا اس لیے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، علمی اور فکری سطح پر انہوں نے ایسے اضطرابی سوالات کا سامنا کیا جو ہماری ذہنی آزادی، معروضی سوچ اور تاریخی سچائیوں کو برداشت کرنے کا کلچر پیدا کرنے کے لیے ضروری تھے۔ پروفیسر وارث میر اپنے دور میں یونیورسٹیوں کے ایسے اساتذہ کی کثیر تعداد میں شامل نہیں تھے جو حسرتوں کے مارے، گریڈوں اور عہدوں کے لالچ میں علمی بصیرت سے کوسوں دور تعصب اور تنگ نظری کی پٹی آنکھوں پر باندھے کئی نسلوں کو اندھیروں کے حوالے کرنے پر مامور تھے۔

دراصل وارث میر چومکھی لڑائی لڑنے والے دانشور اور ایسے استاد تھے جو اپنے طلباء کو آزادی سے سوچنے کی بصیرت عطا کرتے تھے۔اسکے ساتھ ہی ساتھ وہ تعصب کے ماحول سے بچانے کے لیے طلباء کو اپنے پروں کے نیچے محفوظ کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ وارث میر نے صرف 48 برس کی عمر پائی۔ میں میر صاحب کے علمی اور فکری کام کو کافی تفصیل سے پڑھ چکا ہوں جو کہ ’’وارث میر کا فکری اثاثہ ‘‘ کے عنوان سے تین ضخیم جلدوں پر محیط ہے۔ میں شاید ان کے اس اثاثے کا احاطہ نہ کرسکوں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہماری علمی میراث کے صحیح معنوں میں کسٹوڈین تھے، محافظ تھے، وارث میر کی زندگی کو سالوں سے نہیں بلکہ ان سوالوں سے ناپنا چاہئے جو انہوں نے اپنے مضامین میں اٹھائے۔ مگر افسوس زمانہ ان سوالوں کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔ ورنہ آج ہمارے سماج میں وہ فکری کنفیوژن موجود نہ ہوتی جس کا عکس ہم میڈیا پر دیکھتے ہیں۔

پروفیسر وارث میر نے زمانوں کا بوجھ بھی اٹھایا اور زمانوں کے ٹھیکیداروں کا بوجھ بھی اٹھایا۔ ان کے علمی اور فکری سفر کا تجزیہ ہمارے فکری استاد اور اپنے وقت کے بڑے سکالر پروفیسر کرار حسین نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’وارث میر کو اسلام اور پاکستان سے بڑی محبت تھی بلکہ عشق تھا، اسی لیے اسکی زندگی مذہب کے نام و نمائش پر اسلام اور پاکستان کا استحصال کرنے والے ٹھیکیداروں سے پیہم جہاد تھی۔ اس کے لیے اس کے نظریات اور ابلاغ کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ وارث میر ہر طرح کی آمریت کے خلاف تھا خواہ وہ آمریت کسی رنگ میں ہو، وہ ہر قسم کی ملائیت کے خلاف تھا خواہ وہ ملائیت کسی نظریے یا عقیدے پر مبنی ہو، اس لیے کہ یہ حالت انسان کی آگہی اور شرافت کو سلب کر لیتی یے۔ وارث میر نے مذہبی اور سماجی فکر کے ایک پابند ماحول میں اپنا صحافتی کیریئر شروع کیا لیکن لیکن فکری ارتقا کے بعد انہوں نے رسمی اور جامد عقیدوں اور تنگ و تاریک تعصبات سے اپنا دامن چھڑا کر زندگی کے تجربات کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق حق کی تلاش کا سفر شروع کر دیا جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا‘‘۔

میں نے پروفیسر کرار حسین کے یہ اقتباسات اس لیے نقل کئے ہیں کہ وارث میر کے دور میں فکری مغالطوں کی فصلیں کاشت کرنے والے منظم گروہوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ وارث میر دلیری کے ان سے ٹکرا گے، اور اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگا دیں۔ اس حوالے سے معروف ادیب اور لکھاری احمد بشیر کی گواہی بھی موجود یے جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور چور کو چور کہتے ہوئے آستینیں چڑھا کر اسکا حشر نشر کر دیتے تھے۔ اپنی ایک کتاب میں انہوں نے وارث میر کی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جدوجہد بارے لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا: "جنرل ضیاء کا زمانہ تو وارث میر کو مہمیز دینے کے لیے ہی ہم پر مسلط ہوا تھا۔ آپا نثار فاطمہ جنرل ضیاء کے عورت دشمن ایجنڈے کا جھنڈا اٹھائے پھرتی تھی۔ وہ نہایت چالاک خاتون تھی، آدھے منہ کا پردہ کرتی تھی مگر سونے کی چوڑیوں سے بھری ہوئی کلائی کہنی تک ننگی رکھتی تھی۔ اس زمانے میں عورتوں کی آزادی کے خلاف اس کے خیالات کو کاؤنٹر کرتے ہوئے وارث میر نے عورتوں کے حقوق اور ان کی اسلام میں حیثیت کے حوالے سے بے شمار سوالات نہ صرف اٹھائے بلکہ مذہبی، انسانی، اخلاقی، ثقافتی، سماجی، قانونی اور موروثی حوالوں سے تحقیق کے بعد انکا جواب دیتے ہوئے دنیا کو سمجھایا کہ پاکستانی عورت کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جارہا۔ کبھی مذہب کبھی روایت پرستی اور کبھی مرد کی حاکمیت کا سہارا لے کر عورتوں کو غلام رکھا جارہا ہے۔ اس حوالے سے وارث میر جتنی اعلیٰ عمرانی، مذہبی اور سماجی تحقیق اس حوالے سے میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے وارث میر کی خدمات کا اعتراف عاصمہ جہانگیر نے بھی تحریری طور پر کیا اور لکھا کہ وہ حقوق نسواں کا مرد مجاہد تھا۔

وارث میر ایک بے قرار روح لے کر دنیا میں آئے تھے لیکن بظاہر وہ ایک خاموش اور شانت سمندر کی طرح تھے۔ ضیاء الحق کا مارشل لا دور وارث میر کی فکری تکمیل کا زمانہ ثابت ہوا جب وہ آمریت کے خلاف اپنی قلمی جنگ لڑتے ہوئے مردانہ وار مورچے سے باہر نکل آئے۔ آج مڑ کر دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ ضیا کا زمانہ شدید فکری حبس اور خوف و ہراس کا زمانہ تھا جب سچ بولنے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے، وہ زمانہ ضیا جنتا سے اختلاف کرنے والے ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں، وکلاء اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے کا زمانہ تھا لیکن پھر بھی مزاحمت کرنے والے نڈر صحافی دانشور اور ادیب موجود تھے جن میں وارث میر فرنٹ فٹ پر کھیل رہا تھا۔ میرا میر صاحب سے فکری تعلق بھی اسی مزاحمتی کردار کی بنیاد پر قائم ہوا۔

اس زمانے میں ضیا جنتا کی اتحادی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کالج کے کچھ اساتذہ نے مل کر پنجاب کے بڑے شہروں کے ترقی پسند اور علم دوست اساتذہ کی فہرستیں تیار کیں۔ یہ سو کے قریب پروفیسر تھے۔ پہلے تو ان ترقی پسند پروفیسروں کے خلاف فرد جرم تیار کی گئی اور پھر ان کے ’’کالے کرتوتوں‘‘ پر ایڈیشن شائع کیا گیا۔ ان پروفیسروں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میں ایمرسن کالج ملتان میں لیکچرار تھا، مجھے بطور سزا شکر گڑھ بھیج دیا گیا۔ میں چھٹیوں میں لاہور آجاتا اور یہاں کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں شریک ہو جاتا۔ میں نے اس دور میں مارشل لاء کے خلاف بے شمار نظمیں لکھیں۔ جب وارث میر کو پتا چلا کہ ہم اساتذہ کے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے تو انہوں نے ہماری طرف اپنا دست شفقت بڑھایا، ہمیں حوصلہ دیا اور پھر ہم سب پم سفر بن گے۔ ہر دوسرے تیسرے روز کسی تقریب میں وارث میر صاحب سے ملاقات ہو جاتی جو ضیا مارشل لاء کو پتھر مارنے کا ایک بہانہ ہوتی تھی۔ مجھے 1984ء سے 1987ء تک وارث میر کو قریب سے دیکھنے اور سننے کے کئی مواقع ملے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے سیاسی کارکن بھی فنون لطیفہ اور ادب کے ذریعے اپنا اظہار کرنے لگے تھے۔ ان ثقافتی اور ادبی تقریبات کی اطلاع سینہ بہ سینہ سب کو ہو جاتی تھی۔ عین وقت پر ہم سب پہنچے ہوتے تھے۔ پروفیر وارث میر باقاعدگی سے ان نشستوں میں اپنا فکری حصہ ڈالتے رہے۔

وارث میر پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ تھے جہاں اس زمانے میں ایک اسلامی جماعت مکمل قابض تھی۔ یہ جماعت اپنے ہم خیال اساتذہ کو فائدہ پہنچانے اور اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کی سرکوبی کرنے کے لیے کھلے عام ڈنڈے اور پستول کی زبان استعمال کرتی تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وارث میر دن رات کیسے دبائو کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن یہ دباؤ تب ناقابل برداشت ہو گیا جب ان کے نظریات کی سزا ان کی اولاد کو دینے کا فیصلہ کیا گیا اور انکے ایک معصوم بیٹے کو جھوٹے قتل کے کیس میں الجھا دیا گیا۔ وارث میر یہ گھٹیا وار برداشت نہ کر سکے اور جوان عمری میں ہی صرف 48 برس کی عمر میں دنیا چھوڑ گے۔

Back to top button