صحافی ارشد شریف کے قتل کے منصوبہ سازوں کی تلاش دوبارہ شروع

وفاقی حکومت نے صحافی ارشد شریف کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور حقائق عوام کے سامنے لانے کیلئے کمر کس لی ہے۔ایک طرف کیپنا کی عدالت نے ارشد شریف کے قتل کیس میں اپنے ادارے کو مورد الزام ٹھہرا کر پاکستانی صحافی کو انصاف پہنچانے کی کوشش کی ہے وہیں دوسری جانب صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تعطل کی شکار تحقیقات دوبارہ شروع کردی ہیں اور پاکستان میں درج کئے گئے مقدمہ قتل میں نامزد کئے گئے کینیا میں مقیم تین پاکستانیوں وقار احمد، عامر احمد اور طارق احمد وصی کی حوالگی کے لئے انٹرپول میں درخواست دائر کردی ہے۔

روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ ارشد شریف کے قتل کے منصوبہ سازوں نے اصل قاتلوں کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردئیے ہیں اور تفتیش کو اندھیرے راستوں کی جانب دھکیل دیا ہے لیکن ان تمام چیرادستیوں کے باوجود ارشد شریف کے قتل کے کچھ منصوبہ ساز اور قاتل یہیں اردگرد پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ارشد شریف کے قاتلوں اور سہولت کاروں کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بنائی گئی JIT نے ازسرنو تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف ارشد شریف کو پاکستان میں درپیش مسائل کے علاوہ ان وجوہات اور اسباب کا احاطہ کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے ارشد شریف ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے بلکہ یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کے پیچھے کارفرما مشکوک کرداروں کے سیاسی اور غیرسیاسی عوامل اور عزائم کیا تھے جس کی بنیاد پر ارشد شریف اپنی زندگی جان بچانے کے لئےکسی جانے انجانے خوف میں مبتلا ہو کر منظر سے اچانک غائب ہوگیا اور اگلے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ہاؤس پشاور میں وزیراعلیٰ کے’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں پایا گیا۔یہ وہ پہلا سوال تھا جس کا تحقیقاتی اداروں کو مدلل اور غیر سیاسی جواب نہیں ملا جس کی بنیاد پر یہ ایک سوال نے کئی سوالوں کو جنم دیا اور قتل کے اس مربوط منصوبے کے پیچھے متحرک کردار اپنے’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لئے آگے بڑھتے رہے۔

دوسری جانب ارشد شریف کو یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان میں محفوظ نہیں، خوفزدہ کرکے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی مہم جاری رہی انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پناہ دے دی جس کے بعد وہاں سرکاری طور پر ’’پراسرار سرگرمیوں‘‘ میں اضافہ ہوتاگیا،قتل کے منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کے گرد خوف کا دائرہ اس قدر تنگ کردیاکہ اپنی جان بچانے کے لئے ارشد شریف کے پاس کسی بھی حال میں ملک سے نکل جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیا اور اسی کیفیت میں وہ اسی ٹریپ میں پھنس گیا جس پھندے میں وہ اسے پھنسانا چاہتے تھے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو خوفزدہ کرنے کے لئے حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے ایک جعلی’’تھرٹ الرٹ‘‘ جاری کیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ ارشد شریف کو رات کے کسی پہر اغوا یا قتل کردیا جائے گا لیکن اس الرٹ پر کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ موجود نہیں تھا۔اس کے ساتھ ہی ارشد شریف کو جلدازجلد ملک سے نکالنے کی تدابیر تیار کرتے ہوئے دبئی بھجوانے کا بندوبست کیا گیا جو منصوبے کے مطابق ان کا پہلا پڑاؤ تھا۔رپورٹ کے مطابق اسی رات ارشد شریف کو وزیراعلیٰ کی اسٹاف کار میں انتہائی رازداری کے ساتھ پشاور ائرپورٹ لایا گیا اور انہیں دبئی روانہ کردیا گیا لیکن منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کا تعاقب جاری رکھا اور تین چار دن دبئی میں رکھنے کے بعد انہیں ان کی قتل گاہ کینیا بھجوا دیا۔اس دوران معلوم ہوا کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں دے دیا گیا جس میں وہ راز موجود تھے جو فریقین کے درمیان وجہ عناد بنے۔کیا اصحا فی ارشد شریف کے قتل کے اصل منصوبہ ساز کون تھے؟

وفاقی حکومت نے صحافی ارشد شریف کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور حقائق عوام کے سامنے لانے کیلئے کمر کس لی ہے۔ایک طرف کیپنا کی عدالت نے ارشد شریف کے قتل کیس میں اپنے ادارے کو مورد الزام ٹھہرا کر پاکستانی صحافی کو انصاف پہنچانے کی کوشش کی ہے وہیں دوسری جانب صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تعطل کی شکار تحقیقات دوبارہ شروع کردی ہیں اور پاکستان میں درج کئے گئے مقدمہ قتل میں نامزد کئے گئے کینیا میں مقیم تین پاکستانیوں وقار احمد، عامر احمد اور طارق احمد وصی کی حوالگی کے لئے انٹرپول میں درخواست دائر کردی ہے۔

روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ ارشد شریف کے قتل کے منصوبہ سازوں نے اصل قاتلوں کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردئیے ہیں اور تفتیش کو اندھیرے راستوں کی جانب دھکیل دیا ہے لیکن ان تمام چیرادستیوں کے باوجود ارشد شریف کے قتل کے کچھ منصوبہ ساز اور قاتل یہیں اردگرد پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ارشد شریف کے قاتلوں اور سہولت کاروں کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بنائی گئی JIT نے ازسرنو تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف ارشد شریف کو پاکستان میں درپیش مسائل کے علاوہ ان وجوہات اور اسباب کا احاطہ کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے ارشد شریف ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے بلکہ یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کے پیچھے کارفرما مشکوک کرداروں کے سیاسی اور غیرسیاسی عوامل اور عزائم کیا تھے جس کی بنیاد پر ارشد شریف اپنی زندگی جان بچانے کے لئےکسی جانے انجانے خوف میں مبتلا ہو کر منظر سے اچانک غائب ہوگیا اور اگلے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ہاؤس پشاور میں وزیراعلیٰ کے’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں پایا گیا۔یہ وہ پہلا سوال تھا جس کا تحقیقاتی اداروں کو مدلل اور غیر سیاسی جواب نہیں ملا جس کی بنیاد پر یہ ایک سوال نے کئی سوالوں کو جنم دیا اور قتل کے اس مربوط منصوبے کے پیچھے متحرک کردار اپنے’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لئے آگے بڑھتے رہے۔

دوسری جانب ارشد شریف کو یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان میں محفوظ نہیں، خوفزدہ کرکے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی مہم جاری رہی انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پناہ دے دی جس کے بعد وہاں سرکاری طور پر ’’پراسرار سرگرمیوں‘‘ میں اضافہ ہوتاگیا،قتل کے منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کے گرد خوف کا دائرہ اس قدر تنگ کردیاکہ اپنی جان بچانے کے لئے ارشد شریف کے پاس کسی بھی حال میں ملک سے نکل جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیا اور اسی کیفیت میں وہ اسی ٹریپ میں پھنس گیا جس پھندے میں وہ اسے پھنسانا چاہتے تھے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو خوفزدہ کرنے کے لئے حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے ایک جعلی’’تھرٹ الرٹ‘‘ جاری کیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ ارشد شریف کو رات کے کسی پہر اغوا یا قتل کردیا جائے گا لیکن اس الرٹ پر کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ موجود نہیں تھا۔اس کے ساتھ ہی ارشد شریف کو جلدازجلد ملک سے نکالنے کی تدابیر تیار کرتے ہوئے دبئی بھجوانے کا بندوبست کیا گیا جو منصوبے کے مطابق ان کا پہلا پڑاؤ تھا۔رپورٹ کے مطابق اسی رات ارشد شریف کو وزیراعلیٰ کی اسٹاف کار میں انتہائی رازداری کے ساتھ پشاور ائرپورٹ لایا گیا اور انہیں دبئی روانہ کردیا گیا لیکن منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کا تعاقب جاری رکھا اور تین چار دن دبئی میں رکھنے کے بعد انہیں ان کی قتل گاہ کینیا بھجوا دیا۔اس دوران معلوم ہوا کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں دے دیا گیا جس میں وہ راز موجود تھے جو فریقین کے درمیان وجہ عناد بنے۔کیا اس تاثر کی توثیق یا تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں تھا جس کی وجہ سے مراد سعید اب تک منظر سے روپوش ہیں اور اس روپوشی کے دوران کئی بار افغانستان گئے جہاں بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ارشد شریف کی باڈی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قتل سے پہلے ارشد شریف پر انتہائی تشدد کا انکشاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ہاتھوں کی انگلیوں کے علاوہ پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اب سوال یہ ہے کیا تشدد وقاراور عامر کے فارم ہاؤس یعنی فائرنگ رینج پر ان دونوں کی موجودگی میں ہوا۔پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیاہے کہ فارم ہاؤس میں تشدد کے بعد قتل کے منصوبے کے ڈراپ سین کے لئے ارشد شریف کو نیم مردہ حالت میں عامر کی گاڑی میں سوار کیا گیا کیونکہ وہ ڈنر کے لئے عامر کی گاڑی میں ہی فارم ہاؤس آئے تھے۔گاڑی جیسے ہی فارم ہاؤس سے نکلی اور مین روڈ تک آنے کے لئے کچے راستے سے پکی سڑک پر آئی تو رات کے گھپ اندھیرے میں قائم کی گئی پولیس چوکی پر معمور مسلح پولیس والوں نے ارشد شریف کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن عامر نے گاڑی بھگا دی نتیجتاً پولیس نے تعاقب کیا اور عقب سے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، تمام گولیاں ارشد شریف پرہی برسائی گئیں، کوئی ایک گولی بھی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے نہیں لگی کیونکہ ارشدشریف کو نشانہ بنانا مقصود تھا، عامر کو نہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انتہائی اہم اور قابل غور انکشاف یہ ہے کہ ارشد شریف کی موت قریب سے چلائی گئی گولی سے واقع ہوئی اور عامر سے زیادہ قریب اس وقت کون تھا؟س تاثر کی توثیق یا تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں تھا جس کی وجہ سے مراد سعید اب تک منظر سے روپوش ہیں اور اس روپوشی کے دوران کئی بار افغانستان گئے جہاں بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ارشد شریف کی باڈی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قتل سے پہلے ارشد شریف پر انتہائی تشدد کا انکشاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ہاتھوں کی انگلیوں کے علاوہ پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اب سوال یہ ہے کیا تشدد وقاراور عامر کے فارم ہاؤس یعنی فائرنگ رینج پر ان دونوں کی موجودگی میں ہوا۔پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیاہے کہ فارم ہاؤس میں تشدد کے بعد قتل کے منصوبے کے ڈراپ سین کے لئے ارشد شریف کو نیم مردہ حالت میں عامر کی گاڑی میں سوار کیا گیا کیونکہ وہ ڈنر کے لئے عامر کی گاڑی میں ہی فارم ہاؤس آئے تھے۔گاڑی جیسے ہی فارم ہاؤس سے نکلی اور مین روڈ تک آنے کے لئے کچے راستے سے پکی سڑک پر آئی تو رات کے گھپ اندھیرے میں قائم کی گئی پولیس چوکی پر معمور مسلح پولیس والوں نے ارشد شریف کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن عامر نے گاڑی بھگا دی نتیجتاً پولیس نے تعاقب کیا اور عقب سے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، تمام گولیاں ارشد شریف پرہی برسائی گئیں، کوئی ایک گولی بھی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے نہیں لگی کیونکہ ارشدشریف کو نشانہ بنانا مقصود تھا، عامر کو نہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انتہائی اہم اور قابل غور انکشاف یہ ہے کہ ارشد شریف کی موت قریب سے چلائی گئی گولی سے واقع ہوئی اور عامر سے زیادہ قریب اس وقت کون تھا؟

Back to top button