آئین کے مطابق تمام آزاد اراکین اسمبلی پی ٹی آئی میں کیوں نہیں جائیں گے؟

آئین کے مطابق تمام آزاد اراکین اسمبلی پی ٹی آئی میں کیوں نہیں جائیں گے؟وفاقی حکومت نے مخصوص نشستوں بارے عدالت عظمی کے فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو ماننے سے صاف  انکار  کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف جہاں نظرثانی اپیل دائر کر دی ہے وہیں شہباز حکومت نے سپریم کورٹ سے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کی بھی استدعا کر دی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف میں دھڑے بندی اور گروپنگ کی افواہیں بھی گرم ہیں۔ مبصرین کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو قومی اسمبلی میں 15 ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ دو تہائی اکثریت کے لئے حکومت کو دو سو چوبیس ارکان کی ضرورت ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اتحادی حکومت کے ارکان کی تعداد دو سو نو ہے اس طرح اسھ دو تہائی اکثریت کے لئے محض پندرہ ارکان درکار ہیں۔اس لئے حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ ہر صورت اپنی دو تہائی اکثریت کو یقینی بنائے اس کیلئے جہاں پی ٹی آئی میں دھڑے بندی پر کام شروع کر دیا گیا ہے وہیں حکومت اس فیصلے کے حوالے سے عدالتی محاذ پر بھی سرگرم ہو گئی ہے۔

دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اکتالیس آزاد ارکان قومی اسمبلی کو پندرہ دن دیئے گئے ہیں کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ یہ مہلت بارہ جولائی سے شروع ہوئی اور ستائیس جولائی کو ختم ہوجائے گی۔ تاہم ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا یہ تمام ارکان مقررہ مدت کے دوران پی ٹی آئی سے وابستگی سے متعلق اپنے بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کراسکیں گے؟ کیونکہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بننے سے متعلق خبروں کی بازگشت جاری ہے۔

اس حوالے سے پہلا بیان سینیٹرفیصل واوڈا نے دیا تھا۔ اس کے بعد بعض صحافیوں نے یوٹیوب پر اپنے ولاگز میں کہا کہ فارورڈ بلاک پر کام شروع ہوچکا ہے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مذکورہ آزاد ارکان قومی اسمبلی سے رابطے کئے جارہے ہیں۔ مجوزہ فارورڈ بلاک کو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک رکن لیڈ کر رہاہے۔تاہم ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججز پر مشتمل اکثریتی فیصلے سے بہت پہلے ہی تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک پر کام جاری تھا۔ جبکہ اس سارے مشن کو لیڈ کرنے کی ذمہ داری جنوبی پنجاب نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے ایک منتخب رکن کو دی گئی ہے۔ بظاہر اس کے بیانات حکومت اور ریاست کے خلاف ہوتے ہیں، لیکن یہ محض سیاسی بڑھکیں ہیں۔ اندر سے وہ ملا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کے فوری بعد مذکورہ منتخب رکن کو فارورڈ بلاک بنانے کے ٹاسک پر کام شروع کرنا تھا اور وہ یقین دلاتا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بیس سے بائیس ارکان اس کے رابطے میں ہیں، تاہم بوجوہ وہ اپنا ٹاسک پورا کرنے میں ناکام رہا اور ’’مشن‘‘ میں تاخیر ہوتی رہی۔ اب دوبارہ اسے متحرک کیا گیا ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ اس کے رابطے میں آنے والے زیادہ تر ارکان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنانے سے متعلق کوششیں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں۔ تاہم اس میں دو رائے نہیں کہ اس حوالے سے کام جاری ہے۔

اس دوران پی ٹی آئی کی جانب سے یہ واویلا شروع کردیا گیا ہے کہ ان کے ایم این ایز کو اغوا کیا جارہاہے۔ بیرسٹر گوہر نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ان کے ایم این اے صاحبزادہ امیر سلطان کو اٹھایا گیا ہے اور یہ کہ پارٹی دفتر میں کام کرنے والے کئی ساتھی لاپتا ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کسی رکن کو وفاداری تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جارہا، بلکہ بہت سے ارکان اندرون خانہ ایک ڈیل کے تحت خود ہی فارورڈ بلاک کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اس خطرے کو بھانپ کر کائونٹر اسٹریٹجی کے تحت واویلا کر رہی ہے تاکہ معاملے کو سپریم کورٹ کے ان آٹھ ججز کے سامنے رکھا جاسکے، جنہوں نے اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ کسی قسم کی رکاوٹ ہو تو ان کے چیمبر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی پندرہ دن کی مہلت کے اندر مذکورہ اکتالیس ارکان میں سے کوئی اپنی پارٹی وابستگی سے متعلق بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کراتا تو وہ آزاد ہی تصور کیا جائے گا۔ اور یوں وہ کسی بھی حوالے سے اتحادی حکومت کی ترامیم پر ووٹ دے سکے گا، اس پر نااہلی کی تلوار نہیں لٹکے گی۔ اسی لئے یہ معاملہ اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ پندرہ روز کے اندر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اکتالیس ارکان میں سے کتنے الیکشن کمیشن میں اپنے بیان حلفی جمع کراتے ہیں۔ اگر پندرہ سے بیس ارکان بھی اپنی وابستگی پی ٹی آئی سے ظاہر نہیں کرتے اور آزاد رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی شکل میں ایک بار پھر اتحادی حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم کے لئے دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے کیونکہ دو تہائی اکثریت کے لئے حکومت کو دو سو چوبیس ارکان کی ضرورت ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اتحادی حکومت کے ارکان کی تعداد دو سو نو ہے اس طرح اسھ دو تہائی اکثریت کے لئے محض پندرہ ارکان درکار ہیں۔

دوسری جانب اگر یہ اکتالیس ارکان قومی اسمبلی تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی میں شمولیت کے لئے اپنی دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کرادیتے ہیں تو پھر بھی انہیں ایک اور دریا کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے والے کسی بھی رکن اسمبلی کو تین دن ملتے ہیں کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی جوائن کرسکتا ہے۔جو کہ گھڑی کو الٹاچلا کر سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے پندرہ دن کردیئے ہیں۔اس کے لئے مذکورہ رکن الیکشن کمیشن میں اپنا بیان حلفی یا ڈیکلریشن جمع کراتا ہے کہ وہ فلاں پارٹی میں شامل ہونا چاہتاہے۔ جس کے بعد متعلقہ پارٹی کی جانب سے اس کی توثیق کے لئے ایک سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جاتا ہے، جس پر پارٹی سربراہ کے دستخط ہوتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے ، جو اکتالیس آزاد ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی راہ میں ایک بڑی آئینی و قانونی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن اب تک پی ٹی آئی کے تین انٹرا پارٹی الیکشن کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں آخری انٹرا پارٹی الیکشن آٹھ مارچ کو مسترد کیا گیا تھا۔ یوں اس وقت پی ٹی آئی کے سربراہ سمیت اس کا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ یعنی تحریک انصاف ایک ایسی پارٹی ہے، جس کا دھڑ ہے لیکن سر نہیں۔ ایسے میں جب اکتالیس ارکان قومی اسمبلی، جنہیں پندرہ دن کے اندر الیکشن کمیشن میں حلف نامہ جمع کراکے تحریک انصاف یا کسی بھی پارٹی کا حصہ بننے کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر وہ اپنے بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرابھی دیتے ہیں تو اس کے جواب میں پی ٹی آئی کی جانب سے جو سرٹیفکیٹس الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جائیں گے، اس پر کسی بھی رہنما کی جانب سے بطور سربراہ کئے جانے والے دستخط غیر قانونی تصور کیے جائیں گے۔ کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن درست تسلیم کیے جانے تک پی ٹی آئی ایک ’’ہیڈ لیس‘‘ پارٹی ہے۔ذرائع کے بقول اس سارے منظر نامے میں اکتالیس ارکان اسمبلی کا پی ٹی آئی کو جوائن کرلینا اتنا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ تمام ارکان اس وقت ہی پی ٹی آئی کے کہلائیں گے جب الیکشن کمیشن اس حوالے سے ان کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کردیتا۔

Back to top button