کیا ایڈہاک ججوں کی بھرتی کا مقصد عمرانڈو ججز کو قابو کرنا ہے؟

سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایڈہاک ججوں کی تقرری کا حکومتی فیصلہ شدید تنقید کی زد میں آ گیا ہے اور اپوزیشن نے ہمیشہ کی طرح حکومت پر بدنیتی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد سپریم کورٹ میں عمران خان کے حمایتی ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور حکومتی اتحاد کو پارلیمنٹ میں دوبارہ دو تہائی اکثریت دلوانا ہے تاکہ چیف جسٹس فائز عیسی کو توسیع دی جا سکے۔یاد رہے کہ نون لیگ نے سپریم کورٹ کے 8 ججز کی جانب سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے حکم نامے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دی ہے، لہذا یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ ایڈہاک ججز کی بھرتی کا ایک اور مقصد پی ٹی آئی سے مخصوص نشستیں واپس چھیننا بھی ہے۔ تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان تمام الزامات کو بہتان تراشی اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اعلی عدلیہ میں ججز کی طے کردہ تعداد پوری کی جا رہی ہے جو کہ ایک آئینی تقاضہ ہے۔

مخصوص نشستوں پر حلف لینے والے اراکین نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیا

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں چار ایڈہاک ججز کے تقرر کے لیے جوڈیشل کونسل آف پاکستان کا اجلاس چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت 19 جولائی کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں چار ریٹائرڈ ججوں کی تقرری زیر بحث آئے گی۔ آئین کے آرٹیکل 182 میں ایڈہاک ججز کے تقرر کا طریق کار موجود ہے جسکے مطابق اس کام کے لیے جوڈیشل کمیشن کی مشاورت اور صدر پاکستان کی منظوری ضروری ہے۔ ایڈہاک جج کو بھی سپریم کورٹ کے ریگولر جج کے مساوی ہی اختیارات اور اختیار سماعت حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ہنگامی بنیادوں پر سپریم کورٹ کے ججز کی چار خالی اسامیوں کو پر کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 122 کے تحت جو اجلاس طلب کیا یے اسے پی ٹی آئی نے عدلیہ کے خلاف سازش قرار دے دیا ہے۔ تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کے آئین کے آرٹیکل 182 میں ایڈہاک ججز کے تقرر کا پورا طریق کار دیا گیا ہے جس کے مطابق کسی وجہ سے یہ ضروری ہو کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد میں عارضی طور پر اضافہ کیا جائے تو چیف جسٹس آف پاکستان جوڈیشل کمیشن کی مشاورت اور صدر کی منظوری سے ایسا کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 75 کی شق (2) کے مطابق جوڈیشل کونسل صدر کی منظوری سے کسی ایسے جج کو جو سپریم کورٹ میں فائز رہا ہو اور اسے عہدہ چھوڑے ہوئے تین سال کا عرصہ نہ گزرا ہو، ایڈ ہاک جج نامزد کر سکتی ہے۔ ایڈہاک جج کو بھی وہی اختیار اور اختیار سماعت حاصل ہو گا جو عدالت عظمیٰ کے کسی بھی جج کو حاصل ہوتا ہے۔

لیکن تحریک انصاف نے اس فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا ہے۔ اسکا موقف یے کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری سے سپریم کورٹ اور اس کے ججز پر سمجھوتہ ہو گا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں چار ایڈہاک ججز کی ایک ساتھ تقرری کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گوہر کا کہنا تھا کہ اسکا مقصد عمران خان کے مخالف ججوں کو اکثریت دلوانا اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے کو ریورس کروانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس کو ایسے نازک وقت میں عدالتی تنازعات سے گریز کرنا چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کہ 2015 سے اب تک سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی۔

لیکن دوسری جانب ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایڈ ہاک ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ زیرِ التوا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کے ایسے ججز کو ایڈ ہاک بنیادوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے جنھیں ریٹائر ہوئے تین سال کا عرصہ نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں کمیشن نے جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کے ناموں کی منظوری دی تھی۔تاہم، جسٹس مشیر عالم نے کمیشن کو خط لکھ کر ایڈ ہاک جج کی ذمہ داری لینے سے معذرت کرلی ہے۔ ان کا کہنا ہے انھوں ریٹائرمنٹ کے بعد معذور افراد کیلئے ایک فاونڈیشن قائم کر رکھی ہے لہازا وہ پوری یکسوئی سے معذور افراد کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومتی اتحاد دراصل مخصوص نشستوں کا فیصلہ ریورس کرو کر نہ صرف دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کے بل بوتے پر چیف جسٹس فائز عیسی کے عہدے کی معیاد بھی بڑھانا چاہتا ہے جو کہ 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔ حالانکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس الزام کو رد کیا یے لیکن اطلاعات کے مطابق حکومت دو آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ یا تو چیف جسٹس فائز عیسی کی مدت ملازمت تین سال مقرر کی جائے یا سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 67 سال کی جائے۔ اسی طرح ہائی کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر آئینی ترمیم کے ذریعے 62 برس سے بڑھا کر 64 برس کر دی جائے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے جو مخصوص نشستوں کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں انے کے بعد ختم ہو گئی ہے۔ نون لیگ نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دی ہے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور حکومت کے درمیان خوشگوار تعلقات ہیں۔ دوسری طرف، چیف جسٹس عیسیٰ اور پی ٹی آئی کے تعلقات تب سے کشیدہ ہیں جب عمران خان حکومت نے مئی 2019 میں انکی برطرفی کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔

Back to top button