صدزرداری آن بورڈ،پی ٹی آئی پرپابندی کا حتمی فیصلہ ہوگیا

سینئر صحافی رضا رومی کا کہنا ہے کہ مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان کی آرٹیکل 6 سے متعلق ریفرنس کے مسودات تیار ہو چکے ہیں اور صدر زرداری سے بھی اس معاملے پر بات چیت ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں صدر زرداری مکمل طور پر آن بورڈ ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینئر صحافی رضا رومی کا مزید کہنا ہے کہ کچھ ہفتوں سے ماہرین کی ایک ٹیم پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی سے متعلق ریفرنس کی تیاری میں مصروف ہے۔ صدر زرداری بھی اس میں پوری طرح شامل ہیں اور ایوان صدر میں اس بارے میں بات چیت بھی ہوئی ہے۔ رضا رومی کے مطابق مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی اور آرٹیکل 6 سے متعلق ریفرنس کے مسودات تیار ہو چکے ہیں اور صدر زرداری سے بھی اس معاملے پر بات چیت ہو چکی ہے۔ صدر زرداری کی رضامندی اس لیے ضروری ہے کیونکہ ریفرنس ایوان صدر کی جانب سے ہی سپریم کورٹ کو بھجوایا جانا ہے اور ذرائع بتا رہے ہیں کہ اس ضمن میں صدر زرداری سے مشاورتی عمل مکمل ہو چکا ہے اور جلد اس معاملے پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

دوسری جانب بعض دیگر مبصرین کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ عمران خان کی کارستانیوں کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے 9 مئی کو جی ایچ کیو سمیت فوجی تنصیبات کے سامنے احتجاج کی کال دینے کے حوالے سے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کر دی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں تحریک انصاف کا مؤقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی تو گرفتار ہو چکے تھے وہ 9 مئی کے واقعات کی ہدایات کیسے دے سکتے تھے؟ مگر سابق وزیراعظم کے اعتراف نے اس معاملے پر تحریک انصاف کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا ہے، بانی پی ٹی آئی نے اس گفتگو میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ 9 مئی کے مقدمات میں انہیں ملٹری کورٹ بھجوانے کا پلان ہے مگر ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ اس بیان کے بعد معاملے کو ملٹری کورٹ لے جانے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

عمران خان کے بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جیل سے باہر قیادت کو اندازہ ہوگیا کہ بڑا بلنڈر ہو چکا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا سکتا ہے چنانچہ تحریک انصاف کی قیادت نے بانی پی ٹی آئی کے بیان پر وضاحتیں دینا شروع کر دی ہیں۔تحریک انصاف وضاحتوں میں بھی احتجاج کی اونرشپ تو لے رہی ہے مگر اس احتجاج کے نتیجے میں ہونے والے سانحے کو سازش قرار دیتی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ دراصل 9 مئی کا واقعہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا اعتراف بانی پی ٹی آئی کر چکے ہیں۔

دوسری جانب بعض دیگر مبصرین کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے وفاقی حکومت  سنجیدگی سے سوچ رہی ہےاور سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے سے پہلے سیاسی اور قانونی پہلوؤں کو دیکھا جا رہا ہے تاہم وفاقی حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اتحادیوں کی سپورٹ مل بھی جائے تو تحریک انصاف پر پابندی لگانا ناممکن کام ہے،کیونکہ آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اگر وفاقی حکومت یہ اعلان کر دے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسے طریقے پر بنائی گئی ہے یا عمل کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیتِ اعلیٰ یا سالمیت کیلئے مضر ہے تو وفاقی حکومت مذکورہ اعلان سے پندرہ روز کے اندر معاملہ عدالت عظمیٰ کے حوالے کر دے گی جس کا مذکورہ حوالے سے سے فیصلہ قطعی ہوگا۔وفاقی حکومت کو اندازہ ہے کہ جب وفاقی کابینہ کی منظوری سے پابندی کا سرکاری اعلان ہونے کے 15 روز میں معاملہ سپریم کورٹ جائے گا تو عدالت کے سامنے ایک جماعت پر پابندی کیلئے ٹھوس وجوہات پیش کرنا ہوں گی، حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر الزامات سیاسی ڈومین میں تو لگائے جا رہے ہیں مگر قانونی محاذ پر ان الزامات کو ثابت کرنا حکومت کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان جس نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، اس عدالت کے سامنے یہ ثابت کرنا کہ تحریک انصاف ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے اس پر پابندی عائد کی جائے آسان کام نہیں ہوگا، حکومت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے اعلان کو سیاسی ڈومین میں ہی استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ قانونی شکل دینے کے بعد اس معاملے کو سپریم کورٹ لانے کے نتائج وفاقی حکومت کو بخوبی معلوم ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی تو شاید نہ لگ سکے گی مگر اس کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آرہیں۔

Back to top button