"فائروال” سے ممکنہ نتائج کی توقع؟

تحریر : نصرت جاوید ۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

پاکستان تحریک انصاف وطن عزیز کی پہلی جماعت تھی جس نے اپنا پیغام یا بیانیہ سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا کی منطق مگر یہ تقاضہ بھی کرتی ہے کہ اپنے موقف سے متفق نہ ہونے والوں کو پراپیگنڈہ کا ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح بکائو،بدکردار اور منافق ثابت کیا جائے۔ ناقدوں کی نشاندہی اور کامل نفرت پر مبنی مذمت کے بغیر ’’دیدہ ور‘‘ بنائے شخص کو ’’مسیحا‘‘ ثابت کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔ تحریک انصاف کے بیانیہ پر ٹھوس دلائل کے ساتھ تحفظات کا اظہار کرنے والوں پر لہٰذا یہ حربہ استعمال ہوا۔ اس کی زد میں آنے والے بدنصیبوں میں یہ قلم گھسیٹ سرفہرست رہا۔
آغاز ایک فہرست سے ہوا جو ملک کی مشہور ہائوسنگ سوسائٹی کے ’’سرکاری‘‘ نظر آتے خط پرمرتب ہوئی تھی۔ مذکورہ سوسائٹی کے مالک بہت دریادل مشہور ہیں۔ کہانی یہ پھیلی کہ موصوف نے چند نمایاں صحافیوں کو تحریک انصاف کے فروغ دئے بیانیے کو کمزور بنانے کے لئے اپنی ہائوسنگ سوسائٹی میں قیمتی پلاٹ دینے کے علاوہ ایک کمرشل بینک میں اکائونٹ کھلواکر ان میں خاطر خواہ رقم بھی جمع کروادی ہے۔ وہ فہرست چھپی تو اس میں شامل کئی دوست سپریم کورٹ سے اپنی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے چلے گئے۔ میں البتہ فریاد کرتا رہا کہ مجھے مذکورہ پلاٹ کا قبضہ دلوایا جائے۔ ایک مشہور بینک کے اس اکائونٹ کی چیک بک کا بھی تقاضہ کیا جو میرے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ آج بھی نہایت دیانتداری سے ان دونوں کا متقاضی ہوں تاکہ عمر کے اس حصے میں

لاشیں صرف سویلینز کی گرتی ہیں

 

ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کی مشقت سے نجات پائوں۔
’’فیک نیوز‘‘ کی بدولت میری ساکھ کو جو نقصان پہنچا اسے نہایت ڈھٹائی سے برداشت کیا۔ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے بحرانوں پر نگاہ مرکوز رکھتے ہوئے مگر فکرمندی سے متنبہ کرتا رہا کہ سوشل میڈیا ایک مہلک ہتھیار کی صورت اختیار کررہا ہے۔ اس کی بدولت پھیلائی ’’فیک نیوز‘‘ نے سری لنکا اور برما جیسے ملکوں میں مسلمان اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنادی تھی۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو بھی اسے ’’گائو ماتا‘‘ کے تحفظ کے لئے وحشیانہ انداز میں استعمال کرنا شروع ہوگئے تھے۔
اخباروں کے لئے لکھے کالموں پر توجہ دینا حکمران اشرافیہ نے مگر عرصہ ہوا چھوڑ رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی پہلوئوں پر توجہ دینے کے بجائے ہمارے ریاستی اداروں نے بلکہ اسے نام نہاد ’’پانچویں نسل کی جنگ‘‘ لڑنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ مبینہ جنگ کا کلیدی ہتھیار ’’ذہن سازی‘‘ شمار ہوئی جو ہنر ابلاغ پر انحصار کرتی ہے۔ مذکورہ جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوگیا تو اس کے سپاہیوں کی بھرتی اور تربیت بھی شروع ہوگئی۔ بڑی محنت سے تیار ہوئے ’’سپاہِ ابلاغ‘‘ بتدریج ٹی وی سکرینوں پر مقبول ہوناشروع ہوگئے۔ انہوں نے روایتی صحافیوں کی اکثریت کو بدکردار اور بکائوثابت کردیا۔ اپریل 2022ء کے بعد مگر ’’اپنے ہاتھوں سے تراشے صنم‘‘ بھی باغی ہوگئے۔ ان دنوں بیرون ملک مقیم ہوئے اپنے خالق اداروں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہمارے ہاں اربوں روپے کے خرچ سے اب عوام کو ’’تخریبی خیالات‘‘ سے محفوظ بنانے کے لئے ’’فائروال‘‘ نصب ہورہی ہے۔ ماضی میں ایکس اور اب ٹویٹر کہلاتا پلیٹ فارم کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔گزشتہ چند روز سے انٹرنیٹ کے دیگر پلیٹ فارم بھی سست رفتار ہوگئے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ اربوں روپے کے خرچ سے ہمارے اذہان کو تخریبی خیالات سے محفوظ رکھنے کے لئے مبینہ طورپر جو فائروال نصب کی جارہی ہے وہ بالآخر اپنے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوگی یا نہیں۔ دورِ حاضر میں لیکن انٹرنیٹ سے چھیڑچھاڑ ہمارے ہزاروں نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے جو اپنے وطن اور گھروں میں رہ کر ہی عالمی معیشت کی مشہور اور تقریباََ اجارہ دار کمپنیوں کے لئے انٹرنیٹ سے وابستہ ’’خدمات‘‘ پہنچاتے ہوئے ڈالروں میں رقوم کماسکتے تھے۔
’’فیک نیوز‘‘ کی وجہ سے ذلت وبدنامی کے مراحل سے گزرنے کے باوجود ہمیشہ مصر رہا ہوں کہ ریاستی کنٹرول اس کا مداوا فراہم نہیں کرسکتا۔ سائبر کرائم اور ہتک عزت کے موثر قوانین ہی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے علاوہ ’’سچی خبر‘‘ کی حوصلہ افزائی ہی اس کا موثر ترین تدارک فراہم کرسکتے ہیں۔ سوال مگریہ اٹھتا ہے کہ ہماری ریاست ’’سچی خبر‘‘ کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہے اسے برداشت کرنے کی عادت بھی کسی حد تک اپنا سکی ہے یا نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے اس کا جواب نفی میں دینے کو مجبور ہوں۔
چند دن قبل محرم کے انتہائی حساس دنوں میں ایک جماعت ’’اچانک‘‘ اسلام آباد کے اسی مقام پر قابض ہوگئی جو 2017ء سے اس کا پسندیدہ رہا ہے۔ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے چوک فیض آباد پر دئیے دھرنے کی وجہ سے کامل پانچ دنوں تک جڑواں شہروں کے باسی ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کے لئے معمول سے تقریباََ تین گنازیادہ وقت خرچ کرنے کو مجبور ہوئے۔ اس دوران طویل ٹریفک جام کی وجہ سے جو معاشی نقصان ہوا اس کا تخمینہ لگانے کی کوشش ہی نہیں ہوئی۔ معاملہ فقط گھروں سے دفتر اور دفتروں سے گھر لوٹنے تک ہی محدود نہیں تھا۔ روزمرہّ زندگی کاشاید ہی کوئی معمول تھا جو اس کی وجہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔
ہمارے نام نہاد روایتی میڈیا میں لیکن مذکورہ دھرنے کے ذکر سے اجتناب کا ’’مشورہ‘‘ تھا۔ اس مشورے پر عملدرآمد ہوا۔ فرض کیا اس کے بعد اپنے دفتر سے معمول کے برعکس ٹریفک جام میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ پھنسے رہنے کے بعد اسلام آباد یا راولپنڈی کے کسی باسی نے گھر لوٹ کر ٹی وی آن کیا تو وہ نہایت فکر مندی سے چاہ رہا ہوگا کہ خبروں یا پروگراموں میں اس پر نازل ہوئی مصیبت کا ذکر ہو۔ وہ نظر نہ آئے تو روایتی ٹی وی کا عام ناظر اس کا اعتبارکیوں کرے۔ مان لیتے ہیں کہ روایتی میڈیا عرصہ ہوا بے شمار مجبوریوں کی بنا پر ’’تابعداری‘‘ کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ حق وصداقت کے نام نہاد علمبردار ہوئے یوٹیوب چینلوں کی بے پناہ اکثریت بھی لیکن چند ہی روز قبل فیض آبادمیں دئیے اورکئی دنوں تک پھیلے دھرنے کی وجوہات اور اس کے نتیجے میں عوام کو درپیش مشکلات کو نظرانداز کرتی رہی۔یوٹیوب پر فقط ’’قیدی نمبر 804‘‘ کی حمایت یا شدید مخالفت ہی بکتی ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں کے اْن ’’جی دار‘‘ افراد کا ذکر جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کو ڈٹے بتائے جارہے ہیں۔ ’’خبر‘‘ اپنی اصل شکل میں روایتی کے علاوہ غیر روایتی میڈیا پر بھی نظر نہیں آئے گی تو ’’فیک نیوز‘‘ ہی پھیلے گی۔ فائر وال اسے روکنے میں قطعاََ ناکام رہے گی۔

Back to top button