مشتری دیوتا اور اندھا انصاف

تحریر : سہیل وڑائچ ۔۔۔۔ بشکریہ : روزنامہ جنگ

ون ایکٹ ڈرامہ ۔کردار:رومن دیومالائی دنیا کا سب سے بڑا دیوتا مشتری(JUPITER) انصاف کی اندھی دیوی انصافیہ جان (JUSTITIA) اور عقل کی دیوی منروا جان(MINERVA) ۔

منظر:روم کی سب سے اونچی دیومالائی پہاڑی کیپٹلائن(CAPITALINE) پر طاقت کا دیوتا مشتری اور اسکے سر سے پیدا ہونیوالی بیٹی منرواجان اور انصافیہ جان محو گفتگو ہیں دیومالائی فضائوں میں ہونے والی اس گفتگو میں چاروں طرف دھواں ہے کہیں دور آگ بھی نظر آ رہی ہے اور پس منظر میں دھماکوں کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ تینوں کے درمیان تضادستان موضوع بحث ہے۔

مزاحمتی تحریکوں کے بدلتے رنگ

 

مشتری دیوتا:بو بو، سیاست بو، تضادستان کے سیاست دان عقل کے اندھے اور ریاست کے بے وفا ہیں۔ انہوں نے 75سالوں میں کچھ نہیں سیکھا ہر وقت احتجاج، ہر وقت لڑائیاں ریاست کو چلنے ہی نہیں دیتے یہ بو سیاست ختم ہو گی تب ہی اس ملک میں کچھ بہتری آئے گی۔

انصافیہ جان:اے دیوتائوں کے دیوتا پاک سیاست کو ’’بوسیاست‘‘ آپ نے بنایا ہے میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے تاکہ میں کسی اور رعایت کے بغیر انصاف دوں میرے پائوں میں سانپ موجود ہے تاکہ میں برائیوں کو کچلوں میںاسی لئے آسمانوں سے اتاری گئی ہوں مگر دیوتا، آپ مجھ سے زور زبردستی، ترغیب و تحریص کے ذریعے سارے فیصلے سیاست کے خلاف کرواتے رہےہیں اب میری آنکھ کھل گئی ہے اور میں جان گئی ہوں کہ دیوتا یہ غلطی آپ مجھ سے کرواتے رہے ہیں۔

منرواجان:میں مشتری دیوتا کی بیٹی ہوں اس کے سر سے پیدا ہوئی ہوں میرا کام اس دنیا میں عقل و دانش پھیلانا ہے میرے دیوتا بابا طاقت کا سرچشمہ ہیں وہ کمزور ہوئے تو ریاست کیا دیومالائی دنیا کی چولیں ہی ہل جائیں گی ۔دیومالائی جنگ ٹائٹنز وار(WAR OF TITANS) ہو یا ٹروجن جنگ(TROJAN WAR) دونوں میں بہت نقصان ہوا ٹائٹن جنگ نوجوان اولمپک کے دیوتا زیوس نے جیت کر بوڑھے ٹائٹن کو ہرا دیا تھا اور ٹروجن کی جنگ یونانی جیت گئے مگر یونانیوں نے خود اپنے ہیروز کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔

مشتری دیوتا:بوبو سیاست بو، انصافیہ جان پرانے نظام کو توڑ کر مشہوری اور عوامیت حاصل کرنا چاہتی ہے یہ میرے طاقت کے تخت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے مگر میری گرج((THUNDERاسے تتر بتر کر دے گی انصافیہ جان سے مجھے سیاست کی بو آ رہی ہے یہ اب دیوی نہیں رہی یہ سماوی مخلوق سے ارضی مخلوق بننا چاہتی ہے۔دیوی، دیوتائوں کو شہرت کے گھوڑے پر سواری کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

انصافیہ جان:دنیا کا نقشہ بدل چکا تضادستان کے نظام انصاف میں زمانہ قاضیہ رخصت ہونے کو ہے اب زمانہ منصوریہ آنے کو ہے بلکہ عملی طور پر تو یہ زمانہ شروع ہو چکا زمانہ منصوریہ کے دست حق پرست پر عظمیٰ اور عالیہ کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے کئی شاہ پرست پہلے سے بیعت کر چکے ہیں عظمیٰ خانم کے اکثریتی بچوں نے زمانہ منصوریہ کو آتے دیکھ کر زمانہ قاضیہ کے دور کی وفادار یاں بھی بدل لی ہیں۔ اس لئے بھی نئے زمانہ منصوریہ کے حالات دیکھ کر ہی نئے فیصلے کرنے چاہئیں۔باقی میں نہ باغی ہوں اور نہ شہرت کی بھوکی، میں تو صرف اندھا انصاف کر رہی ہوں جو میرا فرض ہے۔

منرواجان:میں آپ دونوں کو عقل سے سمجھاتی ہوں کہ راستہ نکالو، طاقت کا دیوتا مشتری اور انصاف کی دیوی انصافیہ بھی اگر لڑ پڑے تو ریاست کا نظام تو تلپٹ ہو جائے گا۔بابا!!آپ تو مشتری ہیں سب سے طاقتور دیوتا، آپ تھوڑے پیچھے ہٹ جائیں اب سیاست کو ’’بو‘‘ نہ سمجھیں نہ ہی انصافیہ جان کو موم کی ناک سمجھیں اور مجھ عقل کو بھی اب نادان نہ سمجھیں ہم سب بڑے ہو چکے ہیں۔

مشتری دیوتا:بڑے ہمیشہ بڑے ہی رہتے ہیں چھوٹے بڑوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔انصافیہ جان کی خواہش تو بہت ہے کہ وہ میرے جیسی طاقت و اختیار حاصل کرے اور اس کیلئے وہ آئین کی کتاب اور بر خود غلط ہجوم کی مقبولیت کو استعمال کررہی ہے مگر میرے ہتھیار صرف گرج برس ہی نہیں ہیں آئین کے اندر رہ کر بھی کئی تیر اور تلوار استعمال کرنے پر قادرہوں۔

انصافیہ جان:میری لڑائی طاقت کی نہیں اصول کی ہے اصول کو تو سب کو ماننا پڑتا ہے سب سے بڑے دیوتا مشتری کو بھی بالآخر اصول، آئین اور قانون کو ماننا پڑے گا زمانہ منصوریہ میں عدلیہ ایک طاقت بن جائےگی اکتوبر کے بعد سیاسی نظام بھی انصاف کی سوئی کے ناکےسے گزرےگا اور اس نظام کے اونٹ ناکے سے گزر نہیں پائیں گے نظام انصاف ہر کسی کو آئینی فلٹر سے گزارے گا چاہے کوئی طاقتور دیوتا ہو یا کوئی کمزور بشر۔

منروا جان:کیوں آپ دونوں لڑائی بڑھا رہے ہیں طاقت کی جنگ آگ میں تبدیل ہوئی تو اس کے شعلے دونوں کو بھسم کر دیں گے۔ محبت، مصالحت اور مفاہمت سے کیوں نہیں چلتے نہ انصافیہ جان اکڑ کر بیانات جاری کرے نہ مشتری دیوتا منصفوں کو ڈرائے، دونوں بقائے باہمی اور ایک دوسرے کے احترام کے اصولوں پر چلیں تو لڑے بغیر بھی راستہ نکل سکتا ہے ۔

مشتری دیوتا:بو، بو، سیاست بو!!!اب تو مجھے انصافیہ جان سے بھی سیاست کی بو آرہی ہے پاپولیرٹی سے متاثر ہو کر اس نے آئین کی من مانی تشریح شروع کر دی ہے اور طاقتور دیوتائوں کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اب اس کا کوئی اور علاج نہیں اب ٹروجن وار ہو گی ٹروجن گھوڑا ڈھونڈا جا چکا ہے اس کے ذریعے سے انصافیہ جان اور اس کے سیاسی سرپرستوں کا بندوبست ہو گا اب کوئی اور راستہ نہیں بچا میری رحم دلی اورچھوٹ سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھایا۔جب ماضی میں میرے منہ سے آگ نکلتی تھی تو یہ سب ٹھیک چلتے تھے اب نہ ڈیل، نہ ڈھیل صرف اور صرف طاقت کا استعمال مگر ٹروجن گھوڑے کے ذریعے سے ۔

انصافیہ جان :جس طرح بوڑھے ٹائٹن جنگ ہار گئے تھے مشتری دیوتا بھی جنگ ہار رہے ہیں فارم 47سے بنی ان کی کٹھ پتلی حکومت قوانین کے ذریعے ہمارے اکثر یتی فیصلے کے نفاذ کو روکنا چاہتی ہے مگر آئین کی عملداری، عوام کی حمایت اور حقدار کو حق دینے کی تحریک چل چکی اب مشتری کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو سکیڑے اور سیاست و حکومت سے الگ ہو کر صرف سرحدوں کی حفاظت کرے یا امن وامان کا خیال رکھے۔

منروا جان:آپ کی لڑائی تضادستان کی بگڑی معیشت اور کمزور سیاست کے لئے تباہ کن ہو گی ریاست کو ہی زخم لگ گئے تو نہ مشتری کی طاقت رہے گی اور نہ انصافیہ جان کی عدالت،نہ فارم 47کی حکومت رہے گی اور نہ مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہجوم کی پارٹی سب ہی فارغ ہونگے اگر مشتری دیوتا نے طاقت آزمائی ،انصافیہ جان نے ضد کی ،سیاست دانوں نے مصالحت نہ کی تو پھر تباہی ہی آئے گی ۔

(پردہ گرتا ہے ۔ڈرامہ ختم)

Check Also
Close
Back to top button