عمران اور شیخ حسینہ کے بیٹے نے پاکستان کا موازنہ کس ملک سے کیا ؟

اڈیالہ جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بنگلہ دیش کا موازنہ پاکستان سے کیے جانے کے بعد شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے بھی ایسا ہی موازنہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ’بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔‘ جہاں عمران خان پاکستانی سیاسی صورتحال کا بنگلہ دیش سے موازنہ کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہاں بھی ایسے ہی عوامی احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی چھٹی ہو سکتی ہے وہیں شیخ حسینہ واجد کے صاحبزادے الٹ بات کر رہے تھے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال اب اتنی خراب ہو جائے گی کہ اس کے حالات پاکستان والے ہو جائیں گے۔

کیا بنگلہ دیش کی عبوری حکومت فوج کو واپس بیرکس میں بھیج پائے گی ؟

اس سے پہلے عمران نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈھاکہ میں پیش آنے والے واقعات کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہوئے کہا کہ حسینہ واجد نے اپنی مرضی سے پسند کا آرمی چیف لگایا، لیکن اسی آرمی چیف نے اپنے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ آج بنگلہ دیشں سے بھی برے حالات پاکستان کے ہیں، ہمارے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بنگلہ دیش کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ لہازا جس طرح حسینہ واجد بنگلہ دیش سے بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، ایسے فرار کے راستے بند کیے جائیں۔‘

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے لیے شروع ہونے والی طلبہ تحریک حکومت مخالف پرتشدد احتجاج میں بدلی تو 5 اگست کو 15 سال برسراقتدار رہنے والی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو استعفی دے کر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ اس سارے قصے میں بنگلہ دیش کی فوج کے آرمی چیف وقار الزمان کا مرکزی کردار رہا جنھوں نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کی عبوری حکومت کا نگران مقرر کیا اور دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا سمیت کئی سیاسی مخالفین کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان اور انکی تحریک انصاف ماضی میں بھی مشرقی پاکستان کے حالات کی مثال دیتی رہی ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال سے پاکستان کا موازنہ کرنا درست ہے؟ تاہم اس سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد، جو اپنی والدہ کے مشیر بھی تھے، نے کس تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ کیا۔ بی بی سی کے پروگرام نیوز آور میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سجیب واجد نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’بنگلہ دیش کا سیاسی مستقبل بھی پاکستان کی طرح ہو سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش میں اسلامی شدت پسند دوبارہ سے اپنی جگہ بنائیں گے، جنھیں ان کی والدہ حسینہ کی حکومت نے بڑی مشکل سے محدود کیا تھا لہازا اب بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔‘

پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس بیان پر کوئی بھی ردعمل دینے سے انکار کیا ہے جبکہ متعدد سابق پاکستانی سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک معیوب موازنہ اور تجزیہ ہے۔‘ بنگلہ دیش کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں مِلے جلے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے بیٹے نے یہ بیان غصے اور بغض میں دیا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اب اسلامی رہنما نہیں رہے۔ عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔ ان میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس پر اب پابندی عائد ہو چکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔ اب ان جماعتوں کے قائدین کا ملک واپس آنے کا جواز اسلیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر آج ہم لوگ بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘

’بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیار شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔‘ یاد رہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اُس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو’باسکِٹ کیس‘ کہا تھا۔

یہ حالات 1974 میں تب اور بھی خراب ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا جس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی۔ اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریباً 52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک بھی شامل ہے جس نے غریبوں کو چھوٹے قرضے دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد دی۔ یاد رہے کہ محمد یونس کو بنگلہ دیشی فوج نے عوامی تحریک چلانے والی طلبہ قیادت کے مطالبے پر ملک کا نیا عبوری سربراہ مقرر کیا ہے۔

Back to top button