آئین کے تقاضے کی یاد دہانی

تحریر : نصرت جاوید ۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

اگرچاہیں تو آپ آج کے کالم کا ابتدائیہ دیکھنے کے بعد مزید پڑھنے سے اجتناب برت سکتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں سپریم کورٹ کے اکتوبر میں متوقع چیف جسٹس صاحب کے اس ’’پیغام‘‘ پر تبصرہ آرائی سے گریز کا فیصلہ کرچکا ہوں جو انہوں نے اسلام آباد میں ہوئی ایک تقریب سے خطاب کے دوران دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ سپریم کورٹ کے ہر حکم کی اطاعت آئین کا تقاضہ ہے۔ آئین کے برقرار رہتے ہوئے اعلیٰ ترین عدلیہ کے احکامات پر عملدآمد سے مفر کی گنجائش ہی موجود نہیں۔ ان کے دئے پیغام پر غور کرتے ہوئے اگرچہ مجھے یہ خیال بھی ستانے لگا کہ عمر عطا بندیال صاحب کی نگہبانی میں چلائی سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے انتخاب کے لئے 14مئی 2023ء کی تاریخ بھی طے کردی تھی۔ وہ انتخاب مگر بروقت منعقد ہونہ پائے۔ ان دو اسمبلیوں کے لئے بھی پولنگ 8فروری 2024ء کے روز ہی ہوئی تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ کے جن 8عزت مآب جج صاحبان نے حال ہی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مخصوص نشستوں کے بارے میں جو فیصلہ سنایا ہے ان میں سے کتنے صاحبان 14مئی والے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں مضطرب رہے اور اپنے اضطراب کا اظہار عوام کے روبرو بھی کردیا۔

 

ہمارے آئین کا ’’بنیادی تقاضا‘‘۔ اور برطانوی عدالتیں

یہ سوال اٹھانے کے بعد مذکورہ بالا موضوع سے اس لئے بھی کنی کترانا چاہ رہا ہوں کہ ابھی تک 8رکنی ججوں کا تفصیلی فیصلہ ہمارے سامنے نہیں آیا۔ عزت مآب جسٹس منصورعلی شاہ صاحب نے جو گفتگو کی ہے اس نے عندیہ دیا کہ تفصیلی فیصلہ شاید موسم گرما کی تعطیلات گزرنے کے بعد ہی منظر عام پر آئے گا۔ سادہ ترین الفاظ میں ہمیں ستمبر کے وسط تک انتظار کرنا ہوگا۔ مذکورہ حقیقت کو ذہن میں رکھے بغیر تاہم ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب چینلوں کی بدولت ہماری ذہن سازی کی مشقت اٹھانے والے مہربان عزت مآب منصور علی شاہ صاحب کے بیان پر تبصرہ آرائی کرناشروع ہوگئے ہیں۔ ذہن سازوں کی بھاری بھر کم اکثریت اپنے تبصروں کے ذریعے شہباز حکومت کے ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے پنجابی محاورے والے ’’تراہ‘‘ نکال رہی ہے۔
شہباز حکومت کو خوف دلانے کے علاوہ جو خیال میرے ذہن میں آرہے ہیں انہیں برجستہ بیان کرنے کی مجھ پیدائشی بزدل میں ہمت نہیں۔ گھبرائے دل کو تسلی دینے کے لئے خود کو یاد دلارہا ہوں کہ اعلیٰ ترین عدالت اور حکومت کے مابین تنا? کا ایک اور را?نڈ تو موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد شروع ہوگا۔ اس کے عواقب کے بارے میں سوچتے ہوئے ابھی سے جی کو اضطراب میں مبتلا کیوں رکھیں۔ ہورہے گا کچھ نہ کچھ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے کیوں نہ ستمبر کے وسط کا انتظار کرلیا جائے۔
اہم معاملات پر کچھ جاننے اور بہت زیادہ نہ جاننے کی وجہ سے تبصرہ آرائی سے گریز یا اسے موخر کرنے کی اپنائی عادت سے اکتاکر ہی تو کئی بار آپ کو بتایا ہے کہ میں اس کالم کا عنوان بدلنا چاہ رہا ہوں۔ کیونکہ دل کی بات برملا کہنے کی گنجائش اب ’’صحافت‘‘ میں باقی نہیں رہی۔ میرے ذہن میں اس کالم کے جومتبادل عنوان آئے وہ یک لفظی کے بجائے یک سطری تھے۔ مناسب عنوان تلاش کرنے میں ناکام رہا۔اپنی ناکامی کو اس کالم میں بیان کردیا۔ اسے پڑھ کر سینیٹر عرفان صدیقی مدد کو آئے۔ استادوں سے مختص شفقت کے ساتھ مجھے پیغام بھیجا۔ کلیدی حکم اس پیغام کا یہ تھا کہ ستائش اور صلہ کی تمنا کے بغیر لکھتے جائو۔ میرے اس خیال سے البتہ اتفاق کرتے سنائی دئے کہ ان دنوں دل کی بات برملا کہہ دینے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ’’البتہ‘‘ اور ’’سنائی دئے‘‘ کا استعمال میں نے اس وجہ سے کیا ہے کہ اپنے دل کی بات کہے بغیر انہوں نے مشورہ دیا کہ کالم کا عنوان ’’زیر لب‘‘ ہوسکتا ہے۔ یہ لفظ پڑھتے ہی دل کی گہرائی سے واہ کا اظہار لب تک آگیا۔ پھر خیال آیا کہ فی الحال ’’برملا‘‘ کے عنوان ہی سے کالم کی ہٹی چلائی جائے۔ شجر سے پیوستہ رہا تو شاید برملا کی بہار بھی نصیب ہوجائے گی۔ استاد محترم کی برتی شفقت کا مگر تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔
رواں برس کے ستمبر کے ’’ستمگر‘‘ ہونے کے خیال سے کنی کترانے کی کوشش کررہا تھا تو ذہن میں محمود خان اچکزئی کا بیان کردہ ایک خیال امڈ آیا۔ اچکزئی صاحب سے 1990ء کے برس سے قومی اسمبلی کی کارروائی پر کالم نگاری کی وجہ سے معاملات شناسائی سے باہمی عزت و احترام والے رشتے میں بدلنا شروع ہوگئے تھے۔ ان کی بدولت نائن الیون کے بعد افغانستان پر ہوئے امریکی حملے کو میں چمن میں پاک-افغان سرحد پر موجود رہتے ہوئے رپورٹ کرنے کے قابل ہوا۔ اپنے وہاں قیام کے دوران میری حامد کرزئی سے کوئٹہ میں ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی۔ ان سے ہوئی گفتگو کسی اخبار نویس کے ساتھ ان کے افغانستان جانے سے قبل ہوئی آخری گفتگو تھی۔ اس وقت کے ماحول میں میرے ساتھ ہوئی یہ گفتگو عالمی میڈیا میں وسیع پیمانے پر رپورٹ ہوئی۔ میرا رعب پڑگیا۔
اچکزئی صاحب کے احسانات کو فی الحال بھلاتے ہوئے میں اصل موضوع کی جانب لوٹنا چاہ رہا ہوں۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ شہباز حکومت مستعفی ہوجائے۔ ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو (غالباََ) عبوری دِکھتی قومی حکومت کا سربراہ بنادیا جائے۔ مجوزہ حکومت کا قیام عمل میں آجائے تو وسیع تر قومی مفاد میں وہ تمام سیاسی فریقین کے مابین جامع مذاکرات کا ماحول بنائے۔ ماضی کی تلخیاں بھلاکرکھلے دل سے ہوئے مذاکرات ایسے نئے انتخاب کا بندوبست یقین بناسکتے ہیں جو تمام فریقین کے لئے قابل قبول ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ایک مرتبہ انہوں نے مصطفیٰ نواز کھوکھر کا نام بھی تجویز کیا ہے۔ اس جواں سال سیاستدان کا ’’بڑی لیگ‘‘ میں آنا مجھے اچھا لگا۔ اپنے والد مرحوم کی وجہ سے مجھے بہت عزیز ہیں۔ یہ دونوں نام سنتے ہی لیکن بے شمار افراد کے وہ طعنے یاد آگئے جو مجھے شاہد خاقان عباسی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ کئی لوگ میرے ان کے ساتھ بے تکلف تعلقات کی وجہ سے اس شک میں مبتلا رہے کہ جیسے میں ان دونوں کو اپنی جماعتوں سے الگ ہوکر کچھ نیا‘‘ کرنے کو اْکسارہا ہوں۔ سیاستدانوں کو مشورہ دینا تاہم میری عادت نہیں۔ عرصہ ہوا جان چکا ہوں کہ ہر چھوٹا بڑا سیاستدان اپنی گیم خود لگاتا ہے۔ اسے مجھ قلم گھسیٹ سے رہ نمائی کی ضرورت نہیں۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں لیکن سرگوشیوں میں یہ وسوسے گردش کرتے رہے کہ مسلم لیگ (نون) سے جداہوکر شاہد خاقان عباسی نے نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ’’ان‘‘ کی ایماء پر کیا ہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر مگر ان کی جماعت کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ بہرحال میرے محترم بھائی اچکزئی صاحب نے شاہد خاقان عباسی کا نام تجویز کرتے ہوئے ان افواہوں اور وسوسوں کو قابل اعتبار بنادیا ہے جو شاہد صاحب کی بنائی جماعت کے بارے میں پھیلائے جارہے تھے۔ میں اگرچہ اب بھی مذکورہ وسوسوں پر اعتبار کرنے کو آمادہ نہیں۔

Check Also
Close
Back to top button